سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوامِ متحدہ ماحولیاتی سربراہی کانفرنس سی او پی 26 میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی قبریں کھود رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکامی دنیا کی آبادی کو تباہ کر دے گی۔ ہم حیاتیاتی تنوع کا وحشیانہ استعمال کر رہے ہیں، ہمارا سیارہ ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہا ہے، سطح سمندر میں اضافہ 30 سال پہلے کی شرح سے دوگنا ہے، سمندر پہلے سے زیادہ گرم ہیں۔ عالمی رہنماؤں کو انسانیت کو بچانے کے لئے کام کرنا چاہئے اور اب یہ کہنے کا وقت ہے کہ بہت ہو گیا ہے ہمیں نیچر کو ایک بیت الخلا کی طرح نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہم آگ لگا کر، کھدائیاں کر کے، سرنگیں بنا کر اور زمین کو نقصان پہنچا کر اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں۔ گلاسگو میں جاری اقوامِ متحدہ سی او پی 26 ماحولیاتی کانفرنس کو 2015ء کے پیرس معاہدے کے تسلسل کا ایک اہم جز قرار دیا جا رہا ہے جس میں عالمی برادری نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ گلاسگو سمٹ میں 120 سے زائد سربراہانِ مملکت، متعدد بین الاقوامی تنظیمیں اور ماہرینِ ماحولیات نے حصہ لیا۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ سمٹ گلوبل وارمنگ سے انسانیت کو بچانے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے فوری اقدامات کی اپیل کی۔ انہوں نے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کاربن، جو کہ گلوبل وارمنگ کی سب سے اہم وجہ ہے کا اخراج کرنے والوں سے اس کی قیمت وصول کریں اور دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک جامع تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس سے 2050ء تک ضرر رساں گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کے لئے سب سے بہترین طریقوں کو فروغ دینے میں مدد مل سکے۔ امریکی صدر نے کہا کہ ماحولیاتی تباہیوں کا موجودہ دور عالمی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے امریکہ کے خصوصی ایلچی جان کیری نے اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لئے ہمیں فنڈز مختص کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔ گلاسگو ماحولیاتی کانفرنس کے میزبان برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت ایک طویل عرصہ سے اس مسئلے کے حل کی منتظر ہے اور اگر آج بھی ہم اس بارے میں سنجیدہ نہ ہوئے تو پھر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں بہت تاخیر ہو جائے گی۔
ایک طرف تو ترقی یافتہ ممالک اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امیر ممالک کے لئے اشیائے صرف کی تیاری سے پیدا
ہونے والی آلودگی سے 2010ء کے دوران غریب ملکوں میں 20 لاکھ قبل از وقت اموات واقع ہوئیں۔ یہ تحقیق دنیا کے امیر ترین ممالک کے گروپ "جی 20 ـ" پر کی گئی جس میں 19 ملکوں کے علاوہ 27 ملکوں کا یورپی یونین بھی شامل ہے۔ جی 20 ممالک نہ صرف امیر ہیں بلکہ وہاں عام شہریوں کا معیارِ زندگی بھی اوسط اور کم آمدنی والے ملکوں کے شہریوں سے کہیں زیادہ بلند ہے جسے برقرار رکھنے کے تقاضے بھی بہت زیادہ ہیں۔ سوکوہا جاپان میں ماحولیاتی تحقیق کے قومی ادارے سے وابستہ کیسو کی نانسائی اور ان کے ساتھیوں نے دنیا میں اشیائے صرف کی تیاری سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی پی ایم 2.5 اور ان اشیائے صرف کے استعمال سے متعلق صرف ایک سال 2010ء کے لئے دنیا بھر سے اعداد و شمار جمع کئے۔ واضح رہے کہ فضائی آلودگی کے وہ ذرات جن کی جسامت 2.5 مائیکرو میٹر یا اس سے بھی کم ہو انہیں ماحولیات کی اصطلاح " پی ایم ــ" 2.5ـ" کہا جاتا ہے۔ یہ ذرات لمبے عرصہ تک ہوا میں معلق رہ سکتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ہزاروں میل دور تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ ماحول کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لئے بھی شدید خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 40 لاکھ اموات کی وجہ یہی " پی ایم 2.5 ـ" آلودگی بنتی ہے جب کہ ان مرنے والوں کی اکثریت کا تعلق غریب ملکوں سے ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں جو در اصل ایک ماڈلنگ سٹڈی ہے ماہرین نے 199 ملکوں میں پی ایم 2.5 آلودگی کے ذرائع اور اس آلودگی سے ہلاکتوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ایک ملک کی پی ایم 2.5 آلودگی پڑوسی ملکوں تک پھیل کر وہاں سنگین مسائل جنم دے سکتی ہے۔ اسی مسئلے کا دوسرا پہلو زیادہ تشویشناک ہے۔ امیر ملکوں میں استعمال ہونے والی اشیائے صرف کی بڑی تعداد غریب ملکوں میں تیار کرائی جاتی ہیں تا کہ پیداواری اخراجات کم سے کم رکھے جا سکیں۔ وہ اشیائے صرف یا مصنوعات امیر ممالک میں شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر بناتی ہیں۔ مگر ان کی تیاری سے خارج ہونے والی آلودگی غریب ملکوں میں صحت اور ماحول کے مسائل کو بد سے بد تر بنا دیتی ہے۔
اس کرۂ ارض پر یا اس کے ایک علاقہ میں مختلف اقسام کے جانداروں یعنی انسان، حیوان، پرندے، کیڑے مکوڑے اور چھوٹے بڑے نباتات کی موجودگی کو حیاتیاتی تنوع کا نام دیا جاتا ہے۔ پچھلے پچاس برس کے دوران ساری دنیا کے باشعور اور باخبر لوگوں میں عموماً اور حکومتوں میں بالخصوص یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ قدرت کی بنائی ہوئی اس کائنات میں تبدیلی یا کمی انسانی زندگی کے لئے بڑی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ موجودہ دور میں اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ جنگلات کے ختم ہونے اور چرند و پرند کے کم ہونے میں ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں قدرتی آفات جیسے سیلاب، آندھی، طوفان کا آنا لازمی ہے اور پھر انسانوں میں مہلک بیماریوں کا اضافہ یقینی ہے۔ جدید دور کی حیرت انگیز سائنسی و تجارتی ترقی نے جہاں ایک طرف سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی ہیں وہاں دوسری طرف بعض خطرناک مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں جن سے نمٹنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ صنعتی انقلاب سے پیدا ہونے والے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں اور ان کے حل اتنے مشکل ہیں کہ پوری دنیا کی حکومتیں شش و پنج میں مبتلا ہیں اور عوام میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل اور کسی حد تک خطرناک بھی ماحولیات کے توازن کا بگڑنا ہے۔ وہ توازن جو لاکھوں سال سے جاندار اور بے جان کے درمیان موجود رہا ہے۔ وہ توازن جو انسانوں، جانوروں اور پودوں کے مابین رہا ہے اور جس میں پودوں کا اہم رول شامل ہے۔ انسان، جنگل، پہاڑ ان پر جمے گلیشئر، ندیاں، میدان، سمندر اور ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ماحول، یہ سب کے سب ایک خاص انداز اور تعداد میں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں۔ ان میں سے ایک کا کمزور پڑ جانا یا کم ہو جانا دوسرے کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اس تنوع کو بگاڑنا انسانیت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ عمل مختلف امراض کو جنم دے سکتا ہے۔ کبھی ترقی کے نام پر اور کبھی نئی بستیاں بسانے کی غرض سے درختوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں کاشت کاری کے لئے جنگل کے حصوں کو صاف کیا جانا عام سی بات ہے۔ زراعت یقیناً ضروری ہے لیکن اس کے لئے پیڑوں اور جنگلوں کو کاٹنا کتنا مناسب ہے یہ مقامِ غور ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق محض ہر دو سیکنڈ میں ایک فٹ بال گراؤنڈ کے برابر جنگل کاٹ دیا جاتا ہے۔ غور کریں کس رفتار سے ہماری دنیا پیڑ پودوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جنگلات اس دنیا میں ہماری زندگی کی ضمانت ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جو بحثیں چل رہی ہیں ان میں ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج بتایا جا رہا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کا ضرورت سے زیادہ پیدا ہونا اور اس کے ذریعے گلوبل وارمنگ کا ہونا جس کی وجہ سے یہ زمین گرم ہو رہی ہے، سمندر کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ماہرین کے خیال میں بہت سارے بڑے بڑے شہر جو سمندر کے کناروں پر آباد ہیں وہ ڈوب سکتے ہیں اور ایک بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج انسانی معاشرے نے جو طرزِ زندگی اختیار کر لیا ہے وہ قدرتی طرزِ زندگی سے ہٹ کر غیر فطری زندگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قدرتی وسائل چاہے وہ پانی کی شکل میں ہو، جنگلوں اور پہاڑوں کی شکل میں یا زمین کے اندر معدنیات کی شکل میں ہوں یا پیٹرول کی شکل میں ان وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا جس کی وجہ سے آلودگی بھی پیدا ہو رہی ہے، اس سے بہت سارے دیگر مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔