اسلام آباد : پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی اور جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا آمنا سامنا ہوگیا، دونوں رہنماؤں کی غیر رسمی گفتگو کو میڈیا نے کور کیا، اس موقع پر ملکی اقلیتوں کے حقوق کیلئے سرگرم ہندو ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں سندھ اسمبلی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی کا اقلیتوں کے قانونی حقوق کے تحفظ سے متعلق کرمنل لاء پروٹیکشن آف منارٹی بل 2015 کی منظوری دینا ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ جماعت اسلامی سمیت مذہبی جماعتوں کا مذہب تبدیلی کیلئے بالغ ہونے کی پابندی کی مخالفت کرنا معاشرے میں انتہاپسندانہ نظریات میں اضافے کا باعث بننے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو، رکن قومی اسمبلی نند کمار، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور ڈاکٹر کھٹومل جیون کی بل کو منظور کروانے کے لیے کوششوں کو بھی سراہا۔ ڈاکٹر رمیش کا کہنا تھا کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، اور اس میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں، جس طرح شناختی کارڈ بنوانے کے لیے، ڈرائیونگ لائسنس، ووٹ ڈالنے کے لیے 18 سال کی عمر متعین کی گئی ہے اسی طرح اپنی مرضی سے مذہب تبدیلی کی عمر 18 سال نافذ کی گئی ہے جو قانونی لحاظ سے درست ہے،اس سے کم عمر کے افراد نابالغ شمار کیے جائیں گے جن سے زبردستی مذہب تبدیل کروانا قانونا جرم ہو گا۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ جس حساب سے سندھ میں زبردستی مذہب تبدیلی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ بل پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کیلئے امید کی کرن ہے، اس لیے ہر شعور رکھنے والا انسان اس کا حمایتی ہے لیکن کچھ مذہبی جماعتوں کا اس سے متعلق احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس موقع پر انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی بل کی بلا جواز مخالفت ترک کرنے کی تلقین کی۔ڈاکٹر رمیش کمار نے مزید کہا کہ اس بل کی منظوری سے عالمی سطح پر بھی پاکستان کو پزیرائی ملی ہے اور انتہاپسندی کا جو لیبل پاکستان پر لگا دیا گیا تھا وہ کافی حد تک کم ہوا ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کوشش کریں گے کہ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے اس طرح کا بل پیش کریں تاکہ قومی سطح پر اس کے بارے میں قانون سازی کی جا سکے۔