آج یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ جنرل راحیل شریف رخصت ہوچکے، جنرل راحیل شریف نے قوم کو حادثوں میں جینے کا طریقہ سکھایا،قوم میں فوج کے وقار کو نہایت بلند کیا،آج قوم کا ہر فرد اپنے سپہ سالار اعظم کو سلام پیش کر رہا ہے۔دنیا کی تاریخ میں سپہ سالاروں کی بڑی اہمیت رہی ہے ، فتح ہمیشہ وہی فوج حاصل کرتی رہی جس فوج کا سپہ سالار عین میدان جنگ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ موجود ہوتا اور بے جگری سے لڑتا۔ سپہ سالاروں سے ہمیشہ تخت شاہی کو خطرہ لاحق رہا ہے۔
اقتدار کے حصول کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسلامی تاریخ کی125جنگوں میں حصہ لیا اور شکست کا منہ نہیں دیکھا،حضرت عمر فاروق ؓنے حضرت خالد بن ولیدؓ کو میدان جنگ میں معزول کر دیا اور دارالحکومت پہنچنے کا حکم دیا حضرت خالد بن ولیدؓ نے فوج کی کمان حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو سپرد کی اور دارالحکومت کی طرف روانہ ہوگئے، یہ وا قعہ دنیاکےایک طاقت ور حکمران اورایک ناقابل شکست سپہ سالار کا ہے اور دونوں وقت کی نزاکت کو سمجھتے تھے اور فیصلہ کرنے اور فیصلہ ماننے کی قوت سے مالامال تھے۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اپنے بیٹے ہمایوں کے ہمراہ ایک تقریب میں شریک تھا۔ بابر کا سپہ سالار شیر شاہ سوری بھی اس تقریب میں موجود تھا۔دسترخوان پر سالم دنبے پڑے تھے۔دیگر انتظامات کئے جارہے تھے۔ شیر شاہ سوری نے انتظار کرنے کے بجائے اپنے کمر بند سے خنجر نکالا اور گوشت کے ٹکڑے کر دئیے۔ ظہیر الدین بابر نے اپنے بیٹے کو خبردار کیا کہ اس بندے پر نظر رکھنا ، یہ تمہارے لئے خطرہ بن سکتا ہے اور ظہیر الدین بابر کی پشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور بر صغیر کی تاریخ میں شیر شاہ سوری کے خاندان نے 15 سال حکومت کی۔ پاکستان کی تاریخ فوجی سربراہوں کی مداخلت سے بھرپور ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے چند سالوں بعد ہی 9/11 کے اثرات سے پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان میں اب تک 50ہزارسے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مالی اور سیاسی نقصانات نے پاکستانیوں کے حالات ابتر کر دئیے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی کمان سنبھالی ۔ جنرل صاحب نے ناصرف فوج کے مورال کو بے حد بلند کیا بلکہ قوم میں امید کی کرن نو کو بحال کیا۔
سیاسی قیادت جو جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آئی ، وہ منظر پر موجود ہونے کے باوجود بھی پسِ منظر میں رہی۔
جنرل راحیل نے اپنی مدت ملازمت کے دوران نہایت متحرک وقت گزارا۔ عوام نے بھی ان کی پذیرائی کی اور ان کو ناصرف مقبولیت ملی بلکہ بین الاقوامی سطح پر جنرل راحیل کی دہشتگردی کے خلاف جنگی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ پاکستانی فوج کے سابق سربراہان کی روایت کے مطابق یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ جنرل راحیل بھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع لینے کے خواہشمند ہوں۔ سیاستدانوں کو چھوڑ کر پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت بھی جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کو مثبت طریقے سے دیکھ رہی تھی۔اس کی بنیادی وجہ ان کی بطور سربراہ تقرری سے اب تک دہشتگردی میں کمی، فوج کی حربی صلاحیت میں اضافہ اور کرپشن کے خلاف اقدامات، فوج کے اندر احتساب کی روایت، کراچی آپریشن، بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری، گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور حفاظت بھی خصوصی دلچسپی، را کے پاکستان میں مضبوط نیٹ ورک کی نشاندہی اور سدباب، سیاسی قیادت کے ساتھ ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنا۔
یہ بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کی تاریخ کے واحد جنرل ہیں جنہوں نے حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدانوں کے ساتھ برابری کا رویہ اپنایا۔اپوزیشن نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار تھی۔ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت سے سیاسی قیادت میں بے چینی کی فضا تو بہرحال موجود تھی۔ خصوصاً خبر لیک ہونے والے معاملہ پر فوج اور حکومتی قیادت میں عدم اعتماد کی فضا واضع طور پر محسوس کی گئی۔جنرل راحیل شریف نےپس منظر اور پیش منظر میں رہتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کے کچھ خدشات ہیں اور وہ خدشات بجا طور پر درست بھی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جمہوری طریقے سے اورطے شدہ پالیسیاں کے مطابق تمام ادارے اور لوگ کام کریں تو ایک اچھی روایت قائم ہو گی لیکن اس کے لئے قومی پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔ قومی پالیسی مرتب ہونی چاہیے اور سیاسی قوتیں اس طے شدہ قومی پالیسی سے انحراف نہ کر پائیں۔ اس طرح فوجی سربراہان کی اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق قومی پالیسی پر اثر انداز نہ ہو سکیں جو قومی اور بین الاقوامی تناظر میں بدلتی رہی ہیں۔
اس وقت عوام کی اکثریت کا خدشہ بھی ایک ہی ہے کہ ملک کے لئے جو خدمات جنرل راحیل نے انجام دی ہیں اور جو ایک لائن مقرر کی ہے کیا آنے والے قابل احترام فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اس کو برقرار رکھیں گے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے آنے والے چند سال بہت اہم ہیں اور یہ سب ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال سے ہی ممکن ہو گا۔
پاکستان کے فوجی سربراہان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ فوجی سربراہان کی اکثریت عوام میں ٰغیر مقبول ہونے کے باوجود مدت ملازمت میں توسیع لینا پسند کرتی رہی ہے۔ اور جنرل راحیل کی خدمات تو ناقابل فراموش ہیں ۔ بہرحال آنے والے چند سالوں میں اس بات کا قوم کو خوب اندازہ ہو جائے گا کہ روایت سے ہٹنابہتر تھا یا ناقابل فراموش خدمات ۔ خصوصاََ عالمی اور علاقا ئی حالات ابھی بہت پیچیدہ ہیں سیاسی اور فوجی قیادت کی بہترین حکمت عملی ہی واحد حل ہے۔
نوٹ:ادارے کا بلاگرکی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں