گلگت: وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ چاروں طرف سے ہونے والی تنقید کا جواب حکومت بہترین ترقیاتی کاموں اور عملی اقدامات سے دے رہی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے گلگت بلتستان کے دورے پر آنے والے وفد کے شرکاء کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت نے قلیل مدت میں ہی اہم ترین منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے اور دیگر کئی اہم منصوبے پائپ لائین میں موجود ہیں، دیامر بھاشہ ڈیم کے لیئے 48000ایکڑ اراضی کی خریداری کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے جس پر 68ارب سے زائد رقم لوگوں کو ادائیگی کی مد میں خرچ کی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں سختی سے دس ہزار سے زائد جعلی خسرے بھی مسترد کئے جا چکے ہیں جس سے 10 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیئے سپارکو سمیت دیگر اہم قومی اداروں سے بھی معاونت حاصل کی گئی ہے۔
وزیر اعلی گلگت بلتستان نے مزید کہا کہ دریا کے بہاؤ پر چھوٹے ڈیمز کے قیام سے 60ہزار میگا واٹ سے بھی زائد بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ صوبے کو لوڈشیڈنگ فری کرنے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور اگلے سال تک کئی مزید پاور پراجیکٹس بھی مکمل کئے جائیں گے۔ گلگت بلتستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کے لیئے 4بلین ڈالر تک کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔ دیامر بھاشہ ڈیم ایک قومی منصوبہ ہے جس سے نیشنل گرڈ میں 4500میگا واٹ اضافی بجلی کی پیداوار ممکن ہو سکے گی، اور یہ تربیلہ ڈیم سے چار گنا زیادہ پانی کا ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس ڈیم کے بننے سے تربیلہ ڈیم کی مدت میں سو سال کا اضافہ بھی ہوگا اور اس کی معیاد بڑھے گی۔
صوبے میں بجلی کے منصوبے جلد از جلد مکمل کئے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے او ر موجودہ پیداوار 136میگاواٹ سے بڑھ کر جلد ہی 150میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ صوبے میں تعلیم کا معیار بہتر کرنے کے لیئے کئی اہم اقدامات کئے جا رہے ہیں جس میں سے سر فہرست گلگت بلتستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام ہے جو کہ 30 کروڑ کی لاگت سے شروع کیا جا رہا ہے، اس منصوبے کے تحت نادار اور غریب بچوں کو تعلیم کے حصول میں مدد ملے گی۔ اس فنڈ سے مستفید ہونے والے طالب علم سرکاری اور نجی شعبے میں کہیں سے بھی تعلیم حاصل کر سکیں گے اوراس کے لیئے اخراجات حکومت بر داشت کرے گی۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے وفد سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تسلی بخش ہے اور اسی بناء پر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی سیاح اس پر امن خطے کا رخ کرتے ہیں ۔ تاریخ میں پہلی بار 10لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے گلگت بلتستان آئے۔ حکومت نجی شعبے کے تعاون سے سیاحت کو فروغ دینے کے لیئے بھی اقدامات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں گلگت بلتستان میں تین فائیو سٹار ہوٹلز اور 4تھری سٹار ہوٹلز کی تعمیر کے لیئے نجی شعبے نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خطے میں سیاحوں کی آمد میں بڑھنے کے باعث 50نئے اور بڑے ہوٹلز کی ضرورت ہے۔
سیاحت و کلچر کو فروغ دینے کے لیئے بھی حکومت بھرپور کوششیں کر رہی ہے اور سیاحوں کی دلچسپی کے لیئے ہر سال کئی رنگا رنگ تقریبات بھی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پچھلے سال PSDPمیں دو ارب کی رقم تھی ، اس سال وفاقی حکومت 72 ارب روپے کی لاگت سے کئی نئے منصوبوں کا آغاز کر رہی ہے۔ بابوسر روڑ سی پیک منصوبے کا حصہ ہے جس کو آل ویدر بنانے کے لیئے سٹڈی کی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان کو ایکو اکنامک زون بنانے کے لیئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ صوبے میں موسمیاتی توازن بر قرار رکھا جا سکے۔ ایسے انڈسٹری نہیں لگائی جائے گی جس سے یہاں کے گلیشئر ز کو کوئی بھی نقصان پہنچ سکے۔ اس سلسلے میں یونائٹڈ نیشن اور اٹلی کے کئی ادارے ریسرچ کر رہے ہیں ۔ مارچ میں جی بی اکنامک زون کے قیام کے حوالے سے ایک بڑے سیمینار کا انعقاد بھی کرایا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان اور سنکیانگ کے مابین کئی اہم منصوبوں کے حوالے سے معاہدے بھی کئے جا رہے ہیں۔