اسلام آباد : پنجاب میں انتخابات کیس میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کے دوران کیس نے نیارخ اختیار کرلیا ہے۔ اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ نظرثانی ایکٹ بن چکا ہے۔صدر مملکت نے سپریم کورٹ نظرثانی ایکٹ پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِثانی درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل توسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطبت ہوتے ہوئے کہا کہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، صدرمملکت کی منظوری کےبعد نظرثانی قانون بن چکا ہے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی قانون سے متعلق سن کر وکیل الیکشن کمیشن کے چہرے پرمسکراہٹ آئی۔
اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، نئے ایکٹ کےتحت نظر ثانی کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا، اب نظرثانی کوفیصلہ دینے والے بنچ سے لارجر بنچ ہی سن سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمعرات کوجوڈیشل کمیشن والا کیس مقررہے، آپ اس بارے بھی حکومت سے ہدایات لے لیں، نیا قانون آچکا ہے ہم بات سمجھ رہے ہیں، آج سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، تحریک انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہوجائے گا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکمنامہ پڑھا ہو گا، ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ تاریخی ایکسیڈنٹ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتا ہے، ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن اور شہزاد سلیم قتل کے کمیشنز کا نوٹیفکیشن دیکھایا، تمام جوڈیشل کمشنز میں چیف جسٹس کی مرضی سے کمیشن تشکیل دیے جاتے ہیں، کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہے تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، میں خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا لیکن کسی اور جج سے تحقیقات کرائی جا سکتی ہے۔ یہ سیاسی پارہ معیشیت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔
پنجاب میں انتخابات کرانےکے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی پارہ معیشیت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔