لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کارکن کی بازیابی کے حوالے سے کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ طاقت والا سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ ہے لیکن آج 1970 نہیں بلکہ 2023 ہے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے خاتون کلثوم ارشد کی اپنے بیٹے شعیب ارشد کی بازیابی کیلئے درخواست پر سماعت کی۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہورکامران عادل عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے9مئی واقعات میں گرفتارملزمان کی شناخت پریڈمکمل کرنیکی رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس انوار الحق نے ریمارکس دیے کہ طاقت والاسمجھتاہےوہ سب کچھ ہےلیکن اب2023ہے1970نہیں ۔ پرامن احتجاج ہرکسی کاحق ہے،9مئی کوجوکچھ ہوااسکےحق میں نہیں ۔ پرامن احتجاج کاحق ختم کرکےکسی کواس حدتک نہیں پہنچنا چاہیے ۔ یہ طاقت سےحل ہونےوالا مسئلہ نہیں ، جو سمجھتے ہیں ، وہ دیکھ لیں ۔
ڈی آئی جی نےدرخواستگزار کےبیٹےشعیب ارشدکی بازیابی بارےرپورٹ پیش کی۔ ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ ملزم کوپولیس نےپکڑا،مجسٹریٹ کی اجازت کےبعداسےشناخت پریڈکیلئےجیل بھجوایا ۔ جسٹس انوار نے سوال کیا کہ اب تک کتنےملزمان کوشناخت پریڈکیلئےجیل بھجوایا؟ ڈی آئی جی نے جواب دیا427ملزمان اس وقت شناخت پریڈکیلئےجیل میں ہیں۔
جسٹس انوار نے مزید استفسار کیا کہ اب تک کل کتنےملزمان کوشناخت پریڈکیلئے جیل بھجوایا جاچکا؟کامران عادل نے جواب دیا کہ اب تک900سےزائدملزمان کوشناخت پریڈکیلئےجیل بھجوایا ۔ جسٹس انوار نے پوچھا کہ بندہ کس طرح ڈھونڈا جاتاہےاگر900 سےزائدملزمان ہوں؟ کامران عادل نے بتایا کہ جیو فنسنگ،سی سی ٹی وی فوٹیج،سوشل میڈیاکےذریعےگرفتاریاں کیں ۔