پاکستان اپنی تاریخ کے پچھترویں سال میں جس بحران کا سامنا کر رہا ہے وہ ملکی سلامتی کو ہمہ پہلو خطرات میں مبتلا کر رہا ہے۔ ملک کی آزادی کا دارومدار ملکی معیشت کے استحکام سے نتھی ہے۔ اس کی حیثیت رگوں میں دوڑنے والے خون کی ہے۔ اس وقت خون کی کمی کے جس درجے پر پہنچ چکے ہیں وہ فوری طبی امداد کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ المیہ اپنی جگہ کہ سود بارے فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ سودی لین دین کی نجاست پر مہر ثبت کرچکا اور نظام کی درستی کے لیے معیشت کو پاک کرنے کے لیے 5 سال کی مہلت دی گئی ہے۔ ہم معاشی تباہی کے اس دہانے پر کھڑے ہیں کہ ملک چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے فوری (سودی) قرضے کا حصول، اس بھنور سے نکلنے کو ناگزیر ہو گیا۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام خودکشی کے مترادف ہے۔ اس کھینچا تانی میں ملک کا حال سوتیلے بچے کا سا ہے۔ کرسی کی اس ضدم ضدا میں ملک کس ابتری کا شکار ہے، کسی کو فکر نہیں۔ عجب حال ہے کہ ایک حکومت اہتمام سے ہٹاکر دوسری لانے والے مقتدرین قانونی وانتظامی گومگو کا شکار نئی حکومت کو درکار موافقت اور تعاون نہیں کر رہے۔ ناتجربہ کاری، نااہلی کے ہاتھوں بدترین معاشی حالات کی بنا پر ہی ایمرجنسی کیفیت میں ملک بچانے کے لیے فوری حکومت بدلنے کا جو اقدام کیا تھا، پھر یکایک ایسا کیا ہوا کہ پورا ملک افراتفری کی نذر ہونے کے دروازے کھول دیے گئے؟ مضبوط ہاتھ سے حالات کنٹرول کرکے معیشت کو فوری سنبھالا دینے کے اقدامات ترجیح اول ہونے کی بجائے سبھی کے سیاست سیاست کھیلنے میں وہ دھول آندھیاں اڑ یں پناہ بخدا! انتخابات ناگزیر بھی ہیں تو مزیداربوں بہانے کا کیا انتظام ہے؟آزادی مارچ رچاتے اربوں کا نقصان کر ۔۔۔ اگر تقریروں، ٹویٹوں، فیصلوں میں تضاد اور انتشار فکری، غیرذمہ دارانہ بیان بازیاں دیکھی جائیں تو حیرت سے دم بخود ہی رہا جاسکتا ہے۔ کیا ملکی احوال کا ایکسرے، ان کرسی کے دعوے داروں اور کس کو بٹھانا کس کو اٹھانا والوں کے فہم سے بالا ہے؟ اتحاد واتفاق جو اس وقت ازحد ضروری تھا، ہر سطح پر اس کے پرخچے اڑ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ خاندانوں کے اندر (سکہ بند دینداروں سمیت) افتراق وخانہ جنگی کی کیفیت، بحث ودلائل کے گھونسے مکے چل رہے ہیں۔
پچھلے دنوں سورج کی طرف سے شدید شعلے بھڑکنے، شعلہ باری کی خبریں آئی تھیں جس پر سائنس دانوں نے وارننگ دی تھی زمین پر اس کے اثرات مرتب ہونے کی۔ شاید ہمارے ہاں کے بیانیوں کی شعلہ انگیزی سورج تک جا پہنچی۔ یہ رپورٹ بھی آئی اس کی بنا پر ایشیا کے کچھ حصوں میں ریڈیو بلیک آؤٹ ہوگیا۔ سیٹلائٹ اور خلائی تنصیبات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، تاہم پاکستان کو تو تھوڑی ضرورت تھی ٹویٹروں، واٹس ایپیوں کے فتنے سے نکل کر خاموش رہنے کی۔
اس وقت تدبر، ہوش مندی، منصوبہ بندی اور قوی ہاتھ سے حالات کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے،تذبذب کی اس فضا کو جاری رکھ کر ناقابل تلافی نقصان کی تیاری ہے؟ چھ دن بعد مزید طوفان اٹھنے کی دھمکی ہے۔آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟ سو یوں سمجھ لیجیے کہ وقت ِدعا ہے اس بھنور سے کشتی سلامت نکل جائے، اللہ کی خاص مدد کے سوا ممکن نہیں۔
یہاں ’مجھے کیوں نکالا‘ پر آگ بگولہ، آتش فشانی ہونے کی کیفیت دیکھتے ہوئے ہم حیرت سے ’ریاستِ مدینہ‘ کے مسلسل حوالوں پر غور کر رہے تھے۔ حقیقی ریاست ِمدینہ کا منظر کیا تھا؟ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ وہاں تو یہ دیکھا کہ کرسی پر بٹھانا مشکل تھا۔ منصب سے گریز، جوابدہی کا خوف انہیں مارے ڈالتا اور رلاتا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گریزاں تھے مگر خلیفہ بنائے گئے، مہاجر وانصار صحابہؓ کے بیعت کیلئے ٹوٹ پڑنے پر۔
عام بیعت کے بعد فرمایا: ’لوگو! میں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے۔ جھوٹ خیانت ہے۔‘ اور جب دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا: دیکھو جب سے میں خلافت میں داخل ہوا ہوں میرے مال میں کتنا اضافہ ہوا ہے، اس کو میرے بعد کے خلیفہ کے حوالے کر دو۔ جب ہم نے حساب کیا تو ایک حبشی غلام تھا اور دوسرے ایک اونٹ تھا۔ ہم نے دونوں کو عمرؓ کے پاس بھیج دیا۔ جسے دیکھ کر عمرؓ رو پڑے کہ: ’اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے انہوںنے اپنے بعد والوں کو بری طرح تھکا دیا۔‘ (تھکے تو وہ جنہوں نے یہ تاریخ پڑھی تعلیم پائی۔ ورنہ باقیوں نے قوم کو تھکا مارا…) حتیٰ کہ بیت المال سے اپنے بال بچوں کے اخراجات کیلئے جو مال (طے شدہ) وظیفے کے طور پر لیا تھا، وہ لوٹانے کیلئے اپنی زمین بیت المال کو دینے کی وصیت فرما دی۔ (یہاں بعد از اقتدار سرکاری گاڑیاں، کوٹھیاں لوٹانے سے انصافیوں، شفافیوں کا انکار! )حضرت ابوبکرؓ نے وفات سے پہلے حضرت عمرؓ کو خلافت سونپنے کا ارادہ بتانے کو بلایا تو سیدنا عمرؓ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے انہیں تلوار کی دھمکی سنائی تو سیدنا عمرؓ کو قبول کرنے کا سوا چارہ نہ رہا!
یہ تو خلفائے راشدین کا عالم رہا اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو جب بازو سے پکڑکر منصب خلافت کیلئے منبر پر بٹھایا گیا تو وہ اناللہ پڑھے جا رہے تھے۔ اور جب خطاب فرمایا تو کہا: ’اے لوگو! مجھ سے پوچھے بغیر یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ میں نے تم لوگوں کی وہ بیعت جو تم نے میرے ساتھ کی تھی ختم کی۔ تم اپنے میں سے جسے چاہو چن لو۔‘ اس پر سب لوگوں نے بیک زبان آپ کی خلافت کی تائید اور اسی پر اصرار کیا اور پھر باقی رات جائے نماز پر اللہ کے حضور جوابدہی کے خوف سے روتے گزری! علماء صلحاء کو قریب کیا۔ مفادپرستوں دنیاداروں کو خود سے دور کیا۔ اور جب دنیا سے عمر بن عبدالعزیزؒ رخصت ہوئے تو بچوں کو تنگ دست چھوڑ چلے۔ انہیں فرمایا: میرے بچو! میرے سامنے دو ہی رستے تھے۔ یا تو تمہیں مال دے کر خود جہنم میں چلا جاتا یا تم تنگ دست رہتے اور میں جنت میں چلا جاتا۔ میں نے تمہارے لیے فقر کو پسند کیا۔ اب ا ٹھ جاؤ، اللہ تمہاری حفاظت فرمائے اور تمہیں رزق دے۔ یہ آئینہ ہے لیکن اسلام صرف تقریری حوالوں میں ہمارے ہاں باقی ہے! دکھ تو یہ ہے کہ پاکستان، ایٹمی قوت، اللہ سے کلمے کے وعدے پر حاصل کرکے ہم بدعہدی کے مرتکب ہوئے۔ آج ہمہ نوع بلائیں بدعہدی کی پاداش ہی ہے۔ مالی بحران کے ساتھ پانی بجلی کا بحران، غیرمعمولی گرمی، بلوچستان کی آگ اور بدترین انتشار۔ ہمیں امت کے مسلمانوں کے تحفظ کا محفوظ قلعہ مسلمانوں کے لیے ماں کی گود کا سا بننا تھا مگر فلسطین تو کیا، ہم اپنی شہ رگ کشمیر، اور مسلمانان ِبھارت پر اس وقت ٹوٹتی قیامت کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ خود پاکستان ہم سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ البتہ کرسی کے لیے عمران خان کا ’سری نگر‘ ہائی وے پر جہاد (کشمیر؟) اور جانیں قربان کرنے کا اعلان!
بھارت مسلمانوں پر ہندوتوا کی جنونی کیفیت سے یوں ٹوٹ پڑا ہے کہ جان، مال، تعلیم، پردہ، عزت آبرو سبھی داؤ پر لگی ہے۔ اسرائیلی ماڈل پر، جو مسجد اقصیٰ اور فلسطین پر یہودی کر رہے ہیں وہی پالیسی بھارت کی ہے۔ کشمیر میں اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے اور کشمیریوں سے زندگی اور راحت کی ہر رمق چھین لینے کے مقابل وہ تنہا پورے عزم سے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی تنظیمیں، مدارس، مساجد جماعتیں عزم راسخ سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ پاکستان ہی منہ موڑے نہیں بیٹھا، مسلمانوں کا مرکزِ عقیدت سعودی عرب اس وقت پورے شد ومد سے بھارت کی اربوں ڈالر کی فلمی صنعت سے فلم سازی میں بھرپور تعاون لینے کی پینگیں والہانہ پن سے بڑھا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی فلمیں سعودی عرب میں بھرپور جگہ بنا رہی ہیں۔ (ایسے میں بھارتی مسلمانوں یا کشمیریوں کی آہوں، کراہوں، غموں دکھوں کا کیا ذکر!) نئی ہواؤں کی اس اڑان میں ایک اور اضافہ! سعودی عرب فضائی کمپنی کی پہلی فلائٹ ر یاض تا جدہ چلا دی گئی ہے، تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ فلموں اور عورت کو جہاز میں لاکھڑا کرنا ترقی کا بہت بڑا پیمانہ ہے! (اگرچہ امریکا نیٹو کی ہمہ گیر ترقیوں کو افغانوں نے گہنا کر ہر ترقی کا مزا کرکرا کردیا ہے۔) فخریہ تصویر میں سات عدد پینٹیں کسے مردانہ حلیوں میں خواتین، جہاز کے ساتھ کھڑی سراپا تفاخر ہیں۔ دنیا کے سارے مردوں کو مات دے ڈالی! دنیا کے مظلوم مسلمان غم دور کرنے کو یہ مناظر دیکھیں اور شاباش دیں!
کہاں ہیں اہلِ فکر جن کی سوچ کے دھارے
مری مظلوم اس امت کا رخ بدل ڈالیں
امت کا رخ بدل ڈالیں
08:51 AM, 29 May, 2022