یومِ تکبیر اور یومِ تخریب

08:39 AM, 29 May, 2022

نیوویب ڈیسک

25 مئی 2022ء کو ایک صوبہ سابق وزیرِاعظم کی قیادت میں مرکز پر حملہ آور ہوا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ’’یومِ تخریب‘‘ تھاجو اپنے پیچھے کئی کہی اَن کہی داستانیں چھوڑ گیا۔ 28 مئی 1998ء کو چاغی (بلوچستان) کے پہاڑوں میں 5 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا۔ آج ہم اِس دن کو ’’یومِ تکبیر‘‘ کے نام سے مناتے ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا بھارت جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب سجائے بیٹھا تھا۔ وہ 1974ء میں ہی ایٹمی قوت بن چکا تھا جبکہ پاکستان اپنے محدود وسائل کی بنا پر کسی بھی صورت میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ 1971ء میں جب بھارت نے پاکستان کو دولخت کیا تو خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا اِس لیے اُس وقت کے وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ امریکی وزیرِخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے ایٹمی پروگرام سے باز نہ آئے تو اُنہیں نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ دبنگ بھٹو نے ہنری کسنجر کی اِس دھمکی کو پرکاہ برابر بھی حیثیت نہ دی اور کہوٹہ میں ایٹمی لیبارٹری کے لیے اِس مشن کے سربراہ ڈاکٹر عبد القدیر خاں کو ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ پاکستان 1984ء میں ایٹمی قوت بن چکا 
تھا لیکن ایٹمی دھماکے اُس وقت کیے جب بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ جب امریکہ کو علم ہوا کہ پاکستان بھی ایٹمی دھماکے کرنے جا رہا ہے تو امریکی صدر بِل کلنٹن نے وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو پہلے دھونس اور پھر مالی امداد کے ذریعے ایٹمی دھماکے کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن میاں صاحب نے نہ تو دھونس قبول کی اور نہ ہی لالچ۔ یہ 28 مئی 1998ء کا دن تھا جب ایٹمی دھماکوں سے چاغی کے پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہونے لگا اور فضاء اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ شاید یہ پاکستان کی تاریخ کا واحد دن تھا جب پوری قوم خوشیوں سے نہال اور عالمِ اسلام کا سَر فخر سے بلند ہوگیا اور وہ اِسے ’’اسلامی بم‘‘ کے نام سے پکار نے لگے۔
 اِس تصویر کا دوسرا رُخ یہ کہ عالمی سازشوں کے تانے بانے بُننا شروع ہوئے اور آمریت کے ہاتھوں ذوالفقارعلی بھٹو کو تختۂ دار پہ لٹکادیا گیا۔ میاں نوازشریف کو مشرفی آمریت نے جلاوطن کیا اور محسنِ پاکستان عبدالقدیر خاں کو غدار قرار دے کر گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ جلاوطنی کاٹنے کے بعد میاں نوازشریف 2013ء کے عام انتخابات میں تیسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے لیکن شاید اُن کی سزا ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اِس لیے محض ایک اقامے کی بنیاد پر نہ صرف تاحیات نااہل قرار دیا گیابلکہ احتساب عدالت کے ذریعے 7 سال قیدبامشقت کی سزا بھی سنائی گئی۔ موجودہ حالات میں بھی عدلیہ کے کردار پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور لوگوں کی دراز زبانیں مجسم سوال ہیں کہ آخرسیاسی فیصلوں کے لیے سپریم کورٹ کے 17 ججز میں سے وہی 5 ججز کیوں سامنے آتے ہیںجن کے فیصلے متنازع ہوتے ہیں۔ تاریخِ عالم بتاتی ہے کہ احسان ناسپاس قومیں کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتیں۔ بھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام کو اپنے ملک کا صدر بنایا اور ہم نے محسنِ پاکستان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے اِس لیے بھارت اُس کی طرف میلی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا لیکن اب اُسے اندرونی طور پہ کمزور کرنے کی بھرپور سازشیں کی جا رہی ہیں۔
 9 اپریل 2022ء کو آئین کے عین مطابق تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خاں کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوئے اور میاں شہبازشریف نے یہ منصب سنبھالا۔ عمران خاں سازش، سازش کا ورد کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 2018ء کے عام انٹخابات میں عمران خاں کو قطعی اکثریت ملی تھی؟۔ کیا اُنہوں نے اِنہی اتحادی جماعتوں کے بَل پر وزارتِ عظمیٰ حاصل نہیں کی جو آج پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہیں؟۔ حیرت ہے کہ اگر اتحادی جماعتیں عمرانی حکومت کا ساتھ دیں تو باضمیر، بااصول، باکردار اور اگر پی ڈی ایم کا ساتھ دیں تو بے ضمیر، بے اصول ، بے کردار۔ امریکی سازشی بیانیے سے شروع کرنے والے عمران خاں نِت نیا بیانیہ گھڑ کر قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ مذہب کے نام پراِس قوم کے جذبات عروج پر ہوتے ہیںاِسی لیے وہ اپنی ہر تقریر میں مذہب کا تڑکہ ضرور لگاتے ہیں۔ اُنہیں یہ بھی علم ہے کہ نوجوان طبقہ ناچ گانوں کا شوقین ہے اِس لیے جہاں ایک طرف وہ ’’ایاک نعبدُ و ایاک نستعین‘‘ سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہیں، وہیں ’’اَج میرا نچنے نوں جی کردا‘‘ جیسے لَچر گانے بھی اُن کے جلسوں کا حصّہ ہوتے ہیں۔ آجکل اُن کے جلسوں اور ریلیوں میں ’’ساتھیو، مجاہدو! جاگ اُٹھا ہے سارا وطن‘‘ جیسے ترانے بھی سنائے جا رہے ہیں کیونکہ اب خاںکا بیانیہ ’’جہاد‘‘ میں بدل چکا ہے۔ وہ اپنے مارچ کو ’’آزادی مارچ‘‘ کا نام دیتے ہوئے پوری قوم کو جہاد کے لیے نکلنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اُن کے اپنے بچے قاسم، سلیمان اور ٹیرن تو انگلینڈ میں محفوظ ہاتھوں میں ہیںاور قوم کے بچوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اپنی بیوی بشریٰ بی بی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ غیرسیاسی ہے لیکن کیا قوم کی بہوبیٹیاں سیاسی ہیں؟۔ ویسے جہاد ہر سیاسی وغیرسیاسی مردوزَن پر فرض ہے بشرطیکہ وہ ’’جہاد‘‘ ہی ہو لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ جب 25 مئی کو اسلام آباد پہنچنے پر عمران خاں اپنے خطاب میں اسلام کا نام لینا ہی بھول گئے تو خطاب کے دوران قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اُن کے کان میں کہا ’’خاںصاحب! تھوڑا اسلامی ٹَچ دیں‘‘۔ تب عمران خاں نے کہا ’’میں اپنے آپ کو عاشقِ رسول کہتا ہوں اور نبیﷺ کا فالوور ہوں‘‘۔ ہمارا خاں سے مطالبہ ہے کہ دین کی آڑ لے کراپنی سیاست بند کریں۔ پوری قوم اُن کے ماضی وحال سے خوب واقف ہے اور قوم کی غالب اکثریت یہ بھی جانتی ہے کہ عمران خاں اپنی سیاست چمکانے کے لیے دین کی آڑ لے رہے ہیں۔ اُن کا ’’جذبۂ جہاد‘‘ پوری قوم نے 25 مئی کو مسترد کر دیا۔ پنجاب سے محض چند سو افراد ٹولیوں کی صورت میں نکلے لیکن یہ جہادی راوی کا پُل کراس کرنے سے پہلے ہی دُڑکی لگا گئے، خیبر پختون خواہ میں اُن کی اپنی حکومت ہے اور ساری حکومتی مشینری کے بَل پر بھی وہ محض چند ہزار ’’جہادیوں‘‘ کے ساتھ مرکز پر حملہ آور ہوئے لیکن جب اُنہیں ’’کہیں سے ‘‘ بتایا گیا کہ سوائے اُن کے ہمراہیوں کے کوئی جہادی اسلام آباد نہیں پہنچا تو وہ بھی 6 دن کا الٹی میٹم دے کر واپس کے پی کے دُڑکی لگا گئے۔ اب بنی گالہ کا محل بھاں بھاں کر رہا ہے اور عمران خاں وہاں اِس خوف کے پیشِ نظر نہیں آرہے کہ کہیں رانا ثناء اللہ جیسا ’’بَدلحاظ‘‘ شخص اُنہیں گرفتار ہی نہ کر لے۔ یہ بجا کہ یوتھیے بڑھکیں لگا رہے ہیں کہ اگر خاںصاحب کو کسی نے ہاتھ لگایا تو وہ پورا پاکستان اُلٹ دیں گے لیکن حقیقت سب کے سامنے لانگ مارچ کی صورت میںعیاں ہوچکی۔ یوں تو خاںصاحب اپنے آپ کو دلیر ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیںکیونکہ سعودی عرب کے کراؤن پرنس کی ایک دھمکی پر وہ لم لیٹ ہوئے اور ملائیشیا جانے کی بجائے پاکستان لوٹ آئے۔ جو شخص جیل جانے سے خوفزدہ ہو اُسے بھلا دلیر کیسے کہا جا سکتا ہے۔
آخر میں وزیرِاعظم میاں شہباز شریف کا قوم سے خطاب جس کا ’’کَکھ‘‘ مزہ نہیں آیا۔ نہ چور ڈاکو کی للکار، نہ این آراو کی تکرار، نہ ایک بال سے تین شکار، نہ کوئی سٹوجز اور نہ ہی اخلاق سے گرا ہوا کوئی جملہ ۔ بس دھیمے سُروں میں معاش و معیشت کا نوحہ اور بیرونی ممالک سے تعلقات کی بربادی کا رونا۔ ہم تو سمجھے تھے کہ وہ حسبِ عادت اشعار بھی سنائیں گے اور مائیک بھی توڑیں گے لیکن ایسا کوئی نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اُنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں غریبوں کے لیے 2 ہزار روپے ماہانہ امداد کا اعلان کیاجو بینظیر انکم سپورٹ کے علاوہ ہوگی اور جسے آمدہ مالی بجٹ میں بھی برقرار رکھا جائے گا۔ میاں صاحب کے دِلی درد سے کم از کم یہ اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ اُن کے اندر وطنِ عزیز کے عوام کے لیے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی اُمنگ جواںہے۔ 

مزیدخبریں