اسرائیل کے غزہ کے بعدشام پر حملے، حزب اللہ کے 5 ارکان سمیت 38 افراد شہید

اسرائیل کے غزہ کے بعدشام پر حملے، حزب اللہ کے 5 ارکان سمیت 38 افراد شہید

قاہرہ: اسرائیل نے شمالی شام کے شہر حلب پر ڈرون حملے کیے جس میں  لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے پانچ ارکان سمیت 38 افراد مارے گئے. 

غیر ملکی میڈیا  ذرائع کے مطابق  شمالی شام کے شہر حلب پر جمعہ کو علی الصبح اسرائیلی حملوں میں لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے پانچ ارکان سمیت 38 افراد مارے گئے.

شام کی وزارت دفاع نے اس سے قبل جمعے کے روز کہا تھا کہ حلب پر اسرائیل اور جنگجو گروپوں کے درمیان حملوں کے بعد متعدد شہری اور فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے حلب کے دیہی علاقوں میں کئی علاقوں کو نشانہ بنایا۔

شامی وزارت دفاع نے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جارحیت کے نتیجے میں متعدد شہری اور فوجی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا‘۔


واضح رہے کہ یہ فضائی حملے ادلب اور مغربی دیہی حلب سے کیے گئے ڈرون حملوں کے ساتھ موافق تھے جنہیں وزارت نے بیان کیا کہ ”دہشت گرد تنظیموں“ نے حلب اور اس کے اطراف میں شہریوں کو نشانہ بنایا۔ 

دوسری جانب اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے شام میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔اس سے قبل یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے حلب کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہ میگزین یا اسلحے کے ڈپو کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بڑے دھماکے ہوئے۔


یاد رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں پر حملے کے بعد سے، اسرائیل نے شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے اڈوں پر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس نے شامی فوج کے فضائی دفاع اور کچھ شامی افواج کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیل برسوں سے شام میں ایسے حملے کرتا رہا ہے، جہاں 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت کرنے کے بعد سے تہران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔

حزب اللہ سمیت ایران کے ساتھ اتحاد کرنے والے جنگجو اب مشرقی، جنوبی اور شمال مغربی شام کے وسیع علاقوں اور دارالحکومت کے آس پاس کے کئی مضافات میں اپنا تسلط رکھتے ہیں۔

اسرائیل اور حزب اللہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل-لبنان کی سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں، جو کہ 2006 میں ایک ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد سے سب سے بڑی کشیدگی ہے۔

مصنف کے بارے میں