کم سے کم وقت میں انتخابات کب کراسکتے ہیں؟ سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ و دفاع سے جواب طلب کرلیا 

کم سے کم وقت میں انتخابات کب کراسکتے ہیں؟ سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ و دفاع سے جواب طلب کرلیا 
سورس: File

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کی نئی تاریخ کے خلاف مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے  وزارت دفاع اور داخلہ سے انتخابات کم سے کم وقت میں کرانے کے حوالے سے جواب طلب کرلیا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔ 

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا ہے کہ ’اگر انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے تو عدالت کو بتاتے۔اس موقعے پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ’اگر الیکشن کمیشن حالات سے دس سال مطمئن نہ ہو تو کیا عدالت الیکشن کروانے کا کہہ سکتی ہے؟‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن حقیقت پسندانہ فیصلہ کرے گا۔ 

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، 2008 میں حالات ایسے تھے کہ کسی نے انتخابات ملتوی کرنے پہ اعتراض نہیں کیا، اللہ کرے 2008 والا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا، حکومت سے پوچھتے ہیں کہ چھ ماہ کا عرصہ کم ہوسکتا ہے یا نہیں۔بنیادی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہو گئی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 218-3 آرٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہوسکتا ہے۔ سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 218-3 شفاف منصفانہ انتخابات کی بات کرتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ساز گار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ کا استعمال نہ ہو۔ اگر معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں۔ سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا ’ سیکشن 85 ہمیں الیکشن بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔  اس پر جسٹس منیب نے وضاحت کی کہ ’سیکشن 85 آپ کو یہ اجازت نہیں دیتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ عدالت آٹھ اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے؟‘۔

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کا دفاع کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ الیکشن شیڈول کے بجائے کمیشن نے آٹھ اکتوبر کا جھنڈہ لگادیا ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کی طرح زندگی کا تحفظ بھی عوام کا بنیادی حق ہے، عدالت صرف الیکشن کمیشن کا حکم بدنیتی مبنی ہونے پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘

جسٹس مندوخیل نے وکیل سے پوچھا کہ کیا بدنیتی کا نقطہ درخواست گزار نے اٹھایا ہے؟ اس پر وکیل کا جواب تھا کہ ’درخواست میں بدنیتی کا نقطہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آزادانہ اور شفاف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن حکومت پر انحصار کرتا ہے؟ ‘حکومت نے بتانا ہے کہ وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پر مطمئن ہے؟‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اگر سکیورٹی مل جائے تو کیا 30 اپریل کو انتخابات ہوسکتے ہیں؟ اس پر وکیل سواتی نے جواب دیا کہ اگر حکومتی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کرواسکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے ویڈیو لنک پر عدالت  میں دلائل دیے۔ اس کے بعد سماعت کل صبح گیارہ بجے تک کے لے ملتوی کر دی گئی۔

مصنف کے بارے میں