اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے۔۔۔ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے اور سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک پرامن انتخابات نہیں ہو سکتے۔
وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے التوا کے معاملے پر سماعت دوبارہ شروع ہو ئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لے کر آگاہ کرنے کو کہا گیا تھا تاہم کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے ہو گی؟ پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائی جائے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کی وجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کر دیا جبکہ کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دے کر واپس لی گئی۔
جسٹس بندیال نے کہا کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلعے میں انتخابات موخر بھی ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ کیا آپ ہمیں قائل کرسکتے ہیں کہ الیکشن آٹھ اکتوبر کو ہی کیوں ہونے ہیں؟ ایسا کیا جادوئی نمبر ہے آٹھ اکتوبر میں؟ کس نے آپ کی تسلی کی ہے کہ آٹھ اکتوبر کو سب صحیح ہوجائے گا اور آٹھ اکتوبر ہی کیوں؟ آٹھ ستمبر یا اگست کیوں نہیں؟
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'آٹھ اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی گئی۔' چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتحابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ عدالت کو ٹھوس بات چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے آئین کے پانچ آرٹیکل پڑھ کر سنائے جس پر جسٹس منیب اور اعجاز الاحسن نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ الیکشن پروگرام کے بارے میں آرٹیکل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ حق کیسے ہے کہ وہ صدر کی طرف سے دی ہوئی تاریخ کو مسترد کر کے الیکشن ملتوی کر دے۔
جسٹس مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے دریافت کیا کہ آپ کا دائرہ کار کہاں سے شروع ہوتا ہے جس پر سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا دائرہ کار صدر کی جانب سے تاریخ دینے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اور پھر ہم الیکشن پروگرام دیتے ہیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کے پاس صدر کی طرف سے دی گئی تاریخ کو ملتوی کرنے کا حق ہے؟