اسلام آباد: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم سچے ہیں اور واقعی انہیں دھمکی دی گئی ہے تو اس ملک کے سفیر کو ملک بدر کریں ۔ اگر خط وزیر دیکھ سکتے ہیں، جج دیکھ سکتے ہیں تو پارلیمان کے ممبر کیوں نہیں دیکھ سکتے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کا مرحلہ جاری ہے پچھلے دو دن سے ملکی سلامتی کے حوالے وزیراعظم اور وزراء نے جو باتیں کی ہیں اس پر اپوزیشن کو بے پناہ تشویش ہے ۔ پرسوں اسلام آباد میں جو جلسہ ہوا نو لاکھ ستر ہزار آدمی تشریف نہیں لاسکے ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں وہ آدمی جو دوسروں کو گھبرائیں نہیں کہا کرتا آج وہ گھبرایا ہوا ہے ۔ تئیس کروڑ مسلمانوں کے ملک کے وزیراعظم نے کاغذ لہرایا ۔ وہ کون سا ملک ہے جس میں یہ ہمت ہوئی کہ وہ دھمکی دے ۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس خط کو ان کیمرہ اجلاس میں رکھا جائے ۔ ہماری چوہتر سالہ تاریخ میں اتنی جرات نہیں ہوئی ۔ہم سب اس معاملے میں ان کے ساتھ ہیں پارلیمان کو بتائیں کہ کس نے دھمکی دی ہے ۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس ملک کا نام لے سکیں جس ملک نے دھمکی دی ہے اس کے سفیر کو ملک سے نکالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا جواب دینے کی ضرورت ہے اگر یہ خط ان کے وزیر دیکھ سکتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو دکھایا جاسکتا ہے ۔ پارلیمان کے سامنے کیوں نہیں لایا جاسکتا ۔ یہ خط عدم اعتماد کے دوران کیوں آیا ؟ جن وزرا نے الزام لگائے معافی یا عدالت جائیں اور ثبوت دیں ۔آپ نے ایٹمی طاقت بنانیوالے شخص پر الزام لگایا
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف آج بھی اس ملک کی سیاست کا محور ہیں ۔ نواز شریف علاج کیلئے گئے ہیں ۔ ملک کا وزیراعظم ان کا نام لے لے کر روتا ہے ۔ دھمکی آمیز خط کو نیشنل سیکیورٹی کونسل اور پارلیمان میں لیکر آئیں اس کامقابلہ کریں گے اگر جھوٹ بولا ہے تو معافی مانگ لیں ۔عمران خان کو دھمکی کسی قوت سے نہیں ہے پاکستان کے عوام سے ہے ۔چند دن بعد آپ نہیں ہوں گے۔