اردو زبان پر مشتمل ادب ’’اردو ادب‘‘ کہلاتا ہے۔ اردو ادب نثر اور شاعری پر مشتمل ہے۔ نثری ادب ناول، افسانہ، داستان، انشائیہ، خطوط نگاری اور سفر نامہ نگاری پر مشتمل ہے۔شعری ادب میں غزل، رباعی، مرثیہ، قصیدہ اور مثنوی شامل ہیں۔ اردو ادب میں نثری ادب کو بھی اتنا ہی مقام حاصل ہے جتنا شعری ادب کو۔اردو ادب جتنا ملک عزیز میں مقبول ہے اتنا ہی ہمسایہ ملک انڈیا میں مقبول ہے۔ اردو زبان افغانستان میں سمجھی اور پڑھی جاتی ہے۔یہ بات الگ اہمیت کی حامل ہے کہ اردو ادب میں نثری ادب سے زیادہ نظمی ادب موجود ہے۔مگر جب بات نثری ادب کی آتی ہے تو داستان کی تخلیقات زیادہ ہیں۔ ان داستانوں میں دیومالائی کہانیاں ، قصے کئی حالات کو بیان کو بیان کرنے والی داستانیں وغیرہ موجود ہیں۔یہ صنف قصہ گوئیوں پر ،دلچسپ کہانی قصوں پر مبنی ہے۔حقائق اور دلائل سے پرے داستانیں ہی اس صنف کے موضوعات تھے۔فارسی مثنوی،پنجابی قصے،سندھی واقعاتی بیت وغیرہ دستانوی موضوعات بن گئے۔سب سے قدیم اردو داستان حمزہ نامہ یا داستان امیر حمزہ ہے۔اردو ادب میں جتنی داستانیں لکھی گئیں وہ انیسویں صدی میں لکھی گئی ہیں۔ موجودہ دور میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ افسانہ نگاری دراصل داستان نگاری ہی کی جدید اور ترقی یافتہ شکل ہے۔علی اکبر ناطق دور حاضر کے جدید نظم نگار،خوبصورت افسانہ نگار اور زمانی اعتبار سے جدید ناول نگار ہیں۔’’بے یقین بستوں میں‘‘ شاعری، ’’قائم دین ‘‘افسانے،’’ نو لکھی کوٹھی‘‘ناول،’’شاہ محمد کا ٹانگہ‘‘ افسانے، ’’کماری والا‘‘ناول ،’’فقیر بستی میں‘‘سوانح عمری مولانا محمد حسین آزاد کے علاوہ دیگر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔علی اکبر ناطق کی تحریروں میں سماج کی مٹی کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔آپ کی تحریریں منظر نگاری کا ایسا سماں پیش کرتی ہیں کہ تمام کردار قاری کے ذہن میں چلتے پھرتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔علی اکبر ناطق کی نظمیں ہوں یا افسانے یا پھر ناول،قاری کو ایک نشست میں پڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہی علی اکبر ناطق کا خاصہ ہے کہ وہ وہاں وہاں تواتر سے پڑھا جاتا ہے جہاں جہاں اردو زبان بولی جاتی ہے۔ کسمپرسی کے اس دور میں علی اکبر کی کتابیں کئی سال سے ’’بیسٹ سیلر‘‘کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔ آج اوکاڑا کی بین الاقوامی ادبی تنظیم ’’ارتعاش‘‘ (جن کے روح رواں اور بانی نامور شاعر،استاد ،کلاسیکل نقاد، سخن ور نجمی ہیں۔ وہ اپنی اچانک ناسازی طبیعت کی بنا پر حاضر نہ ہو سکے) اور گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین اوکاڑا کے شعبہ اردو اوران کی صدر شعبہ محترمہ پروفیسر یاسمین کاشف نے علی اکبر ناطق کے ساتھ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب کی صدرات پاکستان کے عظیم شاعر جناب مسعود احمد نے کی۔اس تقریب کے مہمان خصوصی علی اکبر ناطق اور ممتاز غزل گو شاعر جناب کاشف مجید تھے۔مہمان شعراء میں نعت اور غزل کے مہان شاعر جناب پروفیسر رضاء اللہ حیدر (سابق پرنسپل گورنمنٹ گریجوایٹ کالج اوکاڑا)، جناب احمد جلیل، جناب شفقت رسول قمر،جناب پروفیسر محمد حامد اور راقم الحروف تھے۔ جناب کاشف مجید،جناب رضاء اللہ حیدر،جناب احمد جلیل،جناب شفقت رسول اور محترمہ پروفیسر فروا نقوی نے علی اکبر ناطق کے فکر و فن پر سیر حاصل گفتگو کی اور علی اکبر ناطق کی ادبی خدمات کو سراہا۔حاضرین میں کالج ہذا کی طالبات اور اساتذہ کے علاوہ پروفیسر جنید ثاقب،پروفیسر ڈاکٹر حسن رضا اقبالی،پروفیسر احسن سلیم رانا، پروفیسر افتخار اکرم،پروفیسر رائے محمد افضل،پروفیسر چاند عقیل،احسن اقبال صابری،لالہ احمد شہزاد اورسلمان قریشی (صحافی) نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض پروفیسر یاسمین کاشف اور پروفیسر کاشف مجید نے ادا کیے۔استقبالیہ خطبہ کالج ہذا کی پرنسپل پروفیسر ثمینہ زبیر نے دیا۔اس خوبصورت تقریب کا سہرا کالج ہذا کی پرنسپل پروفیسر ثمینہ زبیر اور پروفیسر مسز کاشف یاسمین کے سر جاتا ہے۔ میں تقریب کی بھر پور کامیابی پر کاشف مجید اور مسز یاسمین کاشف کو ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہوں۔ واضح رہے کہ علی اکبر ناطق میرے بی اے کلاس فیلو بھی ہیں۔علی اکبر ناطق ایک خوبصورت اور سُچے ادیب ہونے کے ساتھ ایک کھرے اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔آپ کا دل انسانیت سے محبت اور ہمدرری سے لبریز ہے۔آپ بلاشبہ بے ضرر انسان ہیں۔سادگی اور سادہ لوحی آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ آنے والا ادبی وقت علی اکبر ناطق کا ہے اور ادب میں نظم ، افسانہ اور ناول تاریخ علی اکبر ناطق کے بغیر نامکمل ہے۔وماعلینا الابلاغ۔