گزشتہ سے پیوستہ
نوجوان کے چہرے پر اطمینان کے سائے بلند ہو رہے تھے، اس نے ہاتھ میں تھامے سوالات کی فہرست پر نظر دوڑائی اور بولا: ’’سر! قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر اور تدبر کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ کائنات اور اس کی نشانیوں پر غور و فکر کریں، ہم مسلمان پچھے پانچ سو سال سے قرآن کی ان آیات کی طرف توجہ نہیں دے سکے، ہم نے پچھلے پانچ سو سال میں کائنات کے اسرار و رموز میں ایک نکتے کا بھی اضافہ نہیں کیا، اس کے برعکس مغربی مفکرین اور فلسفیوں نے ہزاروں ایجادات، سیکڑوں فلسفے اور بیسیوں نئے نظریات متعارف کرائے ہیں تو کم از کم ہمیں ان کو اتنا تو کریڈٹ دینا چاہئے کہ وہ ہم سے زیادہ کائنات کے اسرار و رموز سے واقف اور ہم سے بہتر کائنات کی تفہیم رکھتے ہیں۔‘‘ وہ سوال کر کے خاموش ہوا تو میں نے عرض کیا: ’’اپنی غلطی اور تہذیبی زوال کے اعتراف کے ساتھ میں آپ کا زاویہ نظر درست کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک بات ہے ایجادات کی تو اکثر ایجادات انسانی تہذیب کے مشترکہ غور و فکر کا نتیجہ اور انسانیت کا مشترک اثاثہ ہوتی ہیں، دنیا میں جو بھی نئی ایجاد ہوتی ہے اس کے پیچھے ماضی کے کچھ نظریات کارفرما ہوتے ہیں، آپ جہاز کو دیکھ لیں، یہ اگرچہ بیسیویں صدی کے شروع میں ایجاد ہوا مگر اس کی کوششیں قرون وسطیٰ میں شروع ہو چکی تھیں، عباس بن فرناس پہلا شخص تھا جس نے ہوائی جہاز بنانے اور اڑانے کا نظریہ پیش کیا، اسی طرح بہت ساری ایجادات ایسی ہیں کہ یہ متعلقہ شخص نہ بھی ایجاد کرتے تویہ کچھ عرصہ بعد بہر صورت وجود میں آ جاتیں، مثلاً مارکونی اگر ریڈیو نہ بھی ایجاد کرتا تو بہت جلد کوئی اور یہ کارنامہ سرانجام دے دیتا۔ اگر امریکا ایٹم بم نہ بھی بناتا تو بہت جلد دوسری طاقتیں یہ کارنامہ سرانجام دے دیتیں۔ جہاں تک بات ہے تمہارے دوسرے سوال کی کہ مغربی مفکرین اور فلسفی ہم سے بہتر کائنات کی تفہیم رکھتے اور کائنات کے اسرار و رموز کو جانتے ہیں لہٰذا ہمیں ان کے فلسفوں اور تفہیم کو حرف آخر مان لینا چاہئے، یہ سوال صرف آپ کا نہیں بلکہ ہر جدید تعلیم یافتہ مسلمان کا ہے اور اس نکتہ نظر کو مزید تقویت ہمارا نظام تعلیم پہنچا رہا ہے، ہمارے نظام تعلیم میں پڑھائی جانے والی سوشل اور نیچرل سائنسز مغربی فکر و فلسفہ کی بنیادوں پر قائم ہیں اور اس نظام تعلیم سے پڑھ کر نکلنے والا ہر فرد انہی خطوط پر سوچنے پر مجبور ہے اور اسے مذہب کے بجائے مغربی فکر و فلسفے کی کائناتی
تفہیم اپیل کرتی ہے۔ تم مجھے بتاؤ کیا کائنات کی سیکولر تفہیم نے حتمی حقیقت یا الٹی میٹ ٹروتھ کو پا لیا ہے، کیا مرتے دم تک ان بیسیوں مفکرین میں سے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ حقیقت تک رسائی حاصل کر چکا ہے اور اس کی بعد دریافت کرنے کو کچھ باقی نہیں بچا، کیا سارے مغربی فلسفے نے مل کر خدا، کائنات اور انسان کے حتمی راز کو پا لیا ہے، نہیں نا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے پانچ سو سال کے مغربی فلسفی ساری زندگی فلسفیانہ مباحث میں کھوئے رہے، یہ ساری زندگی ذہنی و فکری آوارگی کا شکار رہے اور آخر میں حقیقت تک رسائی کے بغیر اسی فکری پراگندگی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ ان کے آخری الفاظ اٹھا کر دیکھیں جس میں انہوں نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف اور اگلی زندگی کے بارے خدشات کا اظہار کیا ہے، جس تفہیم اور فلسفے سے یہ لوگ قریب المرگ تک مطمئن نہیں ہوتے اور بعد از خرابیٔ بسیار اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں ہم اس تفہیم اور فلسفے کو حرف آخر کیسے مان لیں؟ ہم کیسے کہہ دیں کہ انسان، خدا اور کائنات کی سیکولر تفہیم حرف آخر ہے۔ مغربی فلسفیوں اور مفکرین کا عجز اور قریب المرگ اپنی ناکامیوں کا اعتراف اس لیے ہے کہ ان کا تھنکنگ پروسس درست نہیں ہوتا، یہ ساری زندگی عقل کی بنیاد پر ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں اور عقل بیچاری خود لولی لنگڑی ہے یہ منزل تک کیسے پہنچا سکتی ہے۔ آپ سائنس اور سائنسدانوں کو دیکھ لیں، سائنس آج اس نکتے پر پہنچی ہے کہ انسان کم علمی اور جہالت سے مرکب ہے، جدید سائنس سراسر انسانی جہالت کا اعتراف ہے، یہ اپنی لاعلمی کے اعتراف کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ سائنس پہلے یہ فرض کرتی ہے کہ انسان لاعلم ہے پھر تجربات اور مشاہدات اکٹھے کرتی ہے اور پھر کسی نتیجے تک پہنچتی ہے۔ سائنس نے جو بات آج دریافت کی ہے، مذہب نے ہمیں سیکڑوں سال قبل آگاہ کر دیا تھا کہ انسانوں کو بہت قلیل علم دیا گیا ہے، گویا فلسفے کی طرح سائنس بھی اپنے عجز اور ناکامی کی معترف ہے، تو ان دونوں کی ناکامی کے بعد ہمارے پاس کیا آپشن بچتا ہے۔‘‘
میں سانس لینے کے لیے رکا، اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا اور سلسلہ کلام کو جوڑتے ہوئے عرض کیا: ’’آخر میں ہمارے پاس صرف مذہب کا آپشن بچتا ہے، ہم عقل اور فلسفے کی حقیقت کو جان چکے ہیں، اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مذہب حقیقت کی دریافت میں ہماری کیسے مدد کرتا ہے اور ہمارا تھنکنگ پروسس مذہبی بنیادوں پر قائم نہ ہو تو یہ کیسے گمراہی کا نکتہ آغاز بنتا ہے۔ تم نے اندازہ کیا کہ مغربی مفکرین، فلسفیوں اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کا تھنکنگ پروسس کیا ہے، ان کا تھنکنگ پروسس یہ ہے کہ یہ محض عقل کی بنیاد پر گھوڑے دوڑاتے ہیں، یہ وحی کو درخور اعتنا نہیں جانتے اور عقل کو حرف آخر سمجھ کر اس کی معیت میں انسان، کائنات اور خدا کی حقیقت کو پانا چاہتے ہیں، عقل بیچاری خود لولی لنگڑی ہے اور یہ انہیں بھی تحقیق، تشکیک اور الحاد کے صحراؤں میں بھٹکنے پر مجبور کر دیتی ہے، یہ ساری زندگی ان صحراؤں میں بھٹکتے ہیں اور قریب المرگ اپنے عجز اور ناکامی کے اعتراف کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ہم سیکولر تھنکنگ پروسس کو جتنا مرضی وسیع کرتے چلے جائیں مگر آخر میں ایک نکتہ ایسا آئے گا جہاں یہ جواب دینے سے قاصر ہو گا اور اسے اپنی کم علمی اور جہالت کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ مثلاً کائنات کی تخلیق کے حوالے سے سیکولر تھنکنگ پروسس ہمیں بگ بینگ تک لے جائے گا مگر بگ بینگ کیوں ہوا کس نے کیا اس کا جواب اس کے پاس نہیں ہے، یہاں صرف مذہبی تھنکنگ پروسس ہی ہماری راہنمائی اور مدد کر سکتا ہے تو کیوں نا ہم پہلے ہی اس تھنکنگ پروسس کے اندر رہ کر سوچیں تاکہ ہم فکری پراگندگی، تشکیک اور الحاد کے صحراؤں میں بھٹکنے سے بھی بچ جائیں اور حقیقت کی دریافت بھی ہمارے لیے آسان ہو جائے۔ اس لیے بحثیت مسلم ہمارا تھنکنگ پروسس یہ ہونا چاہئے کہ ہمارے کچھ بنیادی مسلمات ہیںاور ہم انہی مسلمات کے اندر رہ کر سوچنے کے پابند ہیں، وہ مسلمات خدا، رسالت، وحی اور قیامت ہیں۔ حقیقت کی دریافت اور کائنات کی تفہیم میں ہمارا تھنکنگ پروسس ان مسلمات کے دائرے کے اندر رہے گا تو ہم کسی نتیجے تک پہنچ سکیں گے ورنہ ساری زندگی فکری پراگندگی کا شکار رہنے کے بعد قریب المرگ ہمیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑے گا مگر تب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔‘‘ میں بات کر کے خاموش ہوا تو نوجوان کے چہرے پرخوشی کی چمک تھی، اس کی آنکھوں میں حقیقت کا نور تھا اوراس کے دل و دماغ کو اطمینان کے طویل اور گہرے سائیوں نے ڈھانپ لیا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک سے میرا دل بھی اطمینان سے بھر گیا تھا، میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور تحقیق، تشکیک اور الحادکے اس دور میں ہر مسلمان کی ہدایت کے لیے خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔