سیاسی تفصیلات آ رہی ہیں 178 اراکین اسمبلی کی حمایت ظاہر کرنے کے بجائے جلسے کرنا بذات خود ایک نامعقول حرکت ہے۔ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف سرکاری خرچ پر جلسہ کر رہی ہو۔ ویسے تو کسی سیاسی جماعت میں اس طبقے کی نمائندگی بالکل نہیں ہے جس کے مسائل ہیں اور جس پر حکومت ہوتی ہے۔ یہ ایک دو سال کی بات نہیں تقریباً نصف صدی کا قصہ ہے۔ ضیاء الحق کی آمد، پرائیویٹ سکولوں بہار، طلبا یونین پر پابندی اور دیگر تمام اقدامات ایوان اقتدار کیلئے عام آدمی کا راستہ روکنے کیلئے تھا۔ ایک پی سی ایس، سی ایس ایس کا راستہ رہ گیا مگر جب اس ذریعے سے کوئی حکمران طبقے میں داخل ہوتا ہے تو وہ بھی اس نظام کا بد ترین بلکہ کم ظرف اور بد طینت ترین حصہ بن جاتا ہے۔ جو اس ملک کے عوام جو اب محکوم بن چکے کو زیادہ بے رحمی سے بیوروکریسی کی 24 گھنٹے چلنے اور کبھی نہ بدلنے والی چکی میں پیسنا شروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف امیر امیر ترین اور متوسط طبقہ غریب، غریب بھکاری اور بھکاری مجرم بن گئے۔ بس ایک طبقہ رہ گیا ہے، وہ معاشی، سماجی اور معاشرتی اعتبار سے وضع دار طبقہ ہے۔ وضع دار روایات، سماج کے مسلمہ طریقہ کار، قدیم تمدن کے چلن، پاسداری اور طور طریقے پر رہنے، طرح داری، باطنی خوبصورتی، خوش وضعی، سلیقہ، ڈھنگ، سگھڑاپا، یا یوں کہہ لیجئے کہ بھوک ہو شدت کی مگر چہرے پر آسودگی کا اظہار، ضرورت کے باوجود کسی کی ضرورت اور مہمانداری کا کشادہ دلی کا عملی اظہار کرنا، وضع دار انسان دس ہزار میل سفر کر لیتا ہے لیکن آنکھوں کا سفر یعنی آنکھیں ماتھے پہ رکھنے کا ایک اشارے کا سفر نہیں کر سکتا۔ یہ مرض صرف حساسیت کے مارے، وفا میں مبتلا اور کسی کے جذبات کا خیال رکھنے والے لوگوں کو ہی لاحق ہوتا ہے۔ بے حس کے لیے وطن عزیز جنت سے کم نہیں اور حساس لوگوں کے لیے جیتے جی جہنم ہے۔ ہماری معاشرت اب وضع داروں کے لیے زندگی تنگ کیے دے رہی ہے بلکہ وضعداری زندگیاں نگلنے لگی ہے۔ اس وضع داری نے اچھے خاصے لوگوں کو اداکار بنا دیا۔ سب سے مشکل گھڑی وہ ہوتی ہے جب باپ بیٹے سے بات کرنے سے ڈرے، بہو یا ساس ڈائن ہو مگر بہو یا ساس کو سوسائٹی میں اس کی تعریف کرنا لازم ہو۔ اس لیے کہ اس تعریف میں اس کا اپنا بھرم اور عزت ہو۔
میں نے بڑے بڑے نازک رشتوں سے لوگوں کو اسی سفاکیت کے ساتھ ٹوٹتے دیکھا۔ کوئی غیر تو کبھی حسد نہیں کرتا، وہی کرے گا جو جتنا قریب ہو مگر وضع داری کا تقاضا ہے کہ اس کو ایک زبردست مسکراہٹ کے ساتھ ملنا معاشرتی مجبوری ٹھہرتا ہے۔ میرے ایک دوست ہمیشہ اپنی بہو بیٹیوں کی بہت تعریف کرتے، ہمیشہ ان کے قصیدے پڑھتے لیکن مجھے کسی دوست نے بتایا کہ وہ تو اپنے گھر میں ’’قیدی‘‘ ہے۔ وہ تو اپنے پوتوں کو بھی اپنی منشا سے چھو نہیں سکتا۔ اس کے بیٹے عملی طور پر سسرال نے
چھین لیے ہیں اور بیٹیاں اس سے جھوٹ بولتی ہیں کہ وہ اپنے گھر میں بہت خوش ہیں۔ میرے ایسے دوست بھی ہیں جو زمانے بھر میں ایک مقام رکھتے ہیں لیکن زندگی میں ذاتی زندگی کی تمام جنگیں ہار چکے ہیں۔ ہر مان ٹوٹ چکا مگر معاشرت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مزاج کی حاکمیت رکھنے والے شخص کی اداکاری کرتے ہیں جبکہ خود سونے کی چڑیا مگر مزدور ہیں۔ ایسی چڑیا جو پر بھی نہیں مار سکتی۔ خوش رہنے، آسودہ ہونے، حتیٰ کہ بہادر ہونے کی اداکاری جیسے کٹھن مرحلے ہر وقت ایک نئے دریا کی طرح ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ کڑوا گھونٹ کر کے سچ نہیں بولتے۔ وہ قدامت سے چمٹے اپنے دل کو ندامت میں ڈبوئے رکھتے ہیں۔ کسی بہن بھائی، رشتہ دار، دوست کی سرد مہری، بے وفائی کا شکوہ، اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ یہ تو رویے تھے مگر مہنگائی، بے اصولی اور معاشرت کی الٹی گنگا نے ان وضع داروں کو موت کی وادی میں دھکیل رکھا ہے۔ اب یہ وضعداری زندگیاں نگلنے لگی ہے۔ ایک جگہ عزت رکھنے کے لیے سو جگہ بے عزت ہونا پڑتا ہے کہ عزت کی خاطر میں یہ کام کر رہا ہوں۔ حساسیت، وضع داری، جذباتیت حتیٰ کہ انسانیت جیسے ایک بھیانک سزا ہو، مجھے ذاتی طور پر متوسط طبقے کو اس ناقابل بیان صورت احوال میں مبتلا دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ ان 5/4 دہائیوں میں کسی طبقے کا سب سے زیادہ نقصان ہو ہے تو وہ وضعدار ہے، جو اپنی وضع داری میں ہی مارے گئے۔ یہ وضع دار ہی ہیں جو معاشرت کا بوجھ اپنے ناتوان کندھوں پہ اٹھا اٹھا کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ اس طبقے کے گھر کی خوشی بھی کسی آزمائش بلکہ کڑی آزمائش سے کم نہیں۔ جو بیمار پڑے تو دوائی کے بغیر مر جائیں گے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ گھر میں کھانے کو کچھ ہو نہ ہو مہمان کے لیے اپنا آپ گروی رکھ دیں گے۔ کوئی رشتہ بے وفائی کر جائے اپنی عزت کی خاطر خاموش رہیں گے۔ معاشرت کے ناسور حکمرانوں کی صورت مسلط رہیں، بھلے کتنے ہی مجبور ہوں کسی کے در پہ دستک نہیں دیں گے۔ معاشرت کی ہر ریت، رواج، بھرم ان کے دم سے قائم ہے۔ نودولتیے، مقتدر سے اتنا ہی دور رہیں گے جتنا برائی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ دھوکہ، غیبت، لالچ کے علاقے سے نا واقف ہیں۔ حساسیت، اپنائیت، ہمدردی، انسان دوستی کے نمائندے کے طور پر زندہ رہنا ان کی ان تھک کوشش ہو گی۔ افسوس کہ سوائے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے کسی دور حکومت میں اس طبقے کی نمائندگی اور فلاح کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ وطن عزیز میں زیادہ تر ازدواجی رشتوں کے بندھن وضع داری، رواداری کی بدولت قائم ہیں۔ مگر اب یہ وضع داری اور رواداری سفر کرتے تھک چکی صفات ہیں۔ الحمدللہ میرے احباب میں سے کوئی نہیں جو رواداری اور وضعداری کی علامت نہ ہو۔ 21 مارچ کو ابرار بھٹی کے وصال کے بعد بہت بھاری دکھ میں مبتلا ہوں ان کو جب کفنا دیا گیا۔ دوستوں اورنگزیب بٹ اور سید جمشید علی شاہ نے کہا کہ آؤ آخری دیدار کر لو۔ میں نے کہا نہیں، اس وضعدار، بااخلاق، روادار اور جانثار انسان دوست بھائی کو اپنی آنکھوں میں اسی طرح بسائے رکھنا چاہتا ہوں جو 8 دن پہلے دیکھا۔ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بہت خوش، کالی شلوار قمیص، کالی جیکٹ، کلین شیو اور مسکراتا ہوا چہرہ گو کہ تحریر سے تعلق نہیں رکھتی لیکن یہ دکھ میرے اعصاب پر سوار ہے۔ بہرحال یہ وہ وقت ہے جب وضعداری زندگیاں نگلنے لگی ہے۔ کبھی عید کے اگلے روز چوڑیاں، کپڑے نہ لے کر دے سکنے پر والدین کی خودکشیاں، بڑھتی ہوئی عمر کی شادی کے لیے جہیز کے ہاتھوں منتظر لڑکیوں کے والدین کے ماتھوں کی سلوٹیں دیکھیں، کبھی بچے کی دوائی کے میڈیکل سٹور پر پیسے کم پڑ جانے والے والد کے ٹوٹتے ہوئے بدن پر غور کریں، کبھی بیٹی بیاہنے یا بیٹے کو نوکری دلوانے والے کو ادھار مانگتے وقت بدن کی اکٹھی کرتے ہوئے قوت کو دیکھیں۔ کبھی عزت تار تار ہونے والی لڑکی کے والدین کو دیکھیں، کبھی بوڑھے والدین کے پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار کی امید بھر آنے کی اداکاری تو دیکھیں، بے کفن بیٹوں کو دفنانے والے کے حوصلے کو دیکھیں، کبھی ساری زندگی عزت کی خاطر گزار جانے والوں کی جب کوئی عزت نہ کرے ان کے اس معاشرت پر سوچتے ہوئے تیور تو دیکھئے۔ اور بہت کچھ، یہ سب کچھ وضعداری ہے۔ کبھی آنسوؤں کو روکنے مگر گھونٹ کی صورت حلق سے اترتے ہوئے تو دیکھیں، یہ سب وضعداری ہے جو زندگیاں نگل رہی ہے۔