ریاض:سعودی عرب کے مشیر دفاع اور یمن میں جاری آپریشن کے لیے قائم عرب عسکری اتحاد کے ترجمان جنرل احمد عسیری نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل میں دلچسپی کو سعودی عرب قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ داعش، دہشت گردی اور ایران کے بارے میں امریکا اور سعودی عرب کے موقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کہا کہ دہشت گردی، داعش اور ایران سے عرب ممالک کو بھی ایسے ہی خطرات لاحق ہیں جیسے دنیا کے دوسرے ممالک کو ہیں۔ ایران عرب ممالک میں کھلے عام مداخلت کا مرتکب ہے۔ یمن اس کی سب سے بڑی اور واضح مثال ہے۔جنرل عسیری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوسرے ممالک امریکا کی ضرورت ہیں۔
امریکا ہماری اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ہم سب خطے میں ایک ہی جیسے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔جنرل عسیری نے خطے میں بدامنی کے فروغ میں ایرانی کردار کا ادراک کرنے پر امریکی حکومت کے موقف کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت نے تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر ایران اور چھ عالمی طاقتوں کیدرمیان معاہدے پر درست تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جنرل عسیری نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا مل کر خطے میں ایرانی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں گے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کی شراکت نے تزویراتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تین سال قبل امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد میں سعودی عرب نے ایک متحرک اور موثر اتحادی کی حیثیت سے تعاون کیا۔
داعش کے خلاف جنگ کے لیے سعودی عرب نے اپنے جنگی طیارے جنوبی ترکی کے’انجیرلیک‘ ہوائی اڈے پر تعینات کیے، امریکا کی قیادت پر اعتبار کرتے ہوئے شام میں داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور ریاض نے شام اور پورے مشرق وسطیٰ میں داعش اور القاعدہ کے مالی ذرائع کو بند کیا۔ سعودی عرب کے اندر سے بھی کئی اداروں اور مساجد کو بیرون ملک فنڈنگ سے روکا۔
سعودی عرب سے بیرون ملک غیرقانونی طور پر اسلحہ کی ترسیل پر پابندی لگائی۔ عراق اور شام میں داعش کی صفوں میں شمولیت روکنے کے لیے مشتبہ افراد کے بیرون ملک سفر پر پابندیاں عاید کیں۔جنرل عسیری نے کہا کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو موثر بنانے کے لیے 41 مسلمان ممالک کا فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ یہ فوجی اتحاد خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے انتہاپسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے میں انتہائی مفید اور مدد گار ہے۔
گذشتہ مارچ کے مہینے میں سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی مشقیں کیں جن میں سعودی عرب کے ساڑھے تین لاکھ فوجیوں، 20 ہزار ٹینکوں، 2500 لڑاکا طیاروں اور 20 ملکوں کی فوجوں نے حصہ لیا۔یمن کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل عسیری کا کہنا تھا کہ جس طرح حزب اللہ کے امن کو تباہ کیا۔ اسی طرح ایران نواز حوثیوں نے یمن کے امن کو تاراج کیا۔ سعودی عرب اور یمن کی 1100 میل طویل سرحد کی وجہ سے پڑوسی ملک میں قیام امن سعودی عرب کے دفاع کا بنیادی تقاضا تھا۔
سعودی عرب نے یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لیے فوجی آپریشن شروع کیا۔ حوثی دہشت گردوں نے سعودی عرب کی سرزمین پر 40 ہزار راکٹ برسائے جس کے نتیجے میں 375 عام شہری شہید،500 اسکول بند اور 24 دیہات کے 17 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔اس وقت سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں قیام امن اور آئینی حکومت کی بحالی کے لیے 12 ممالک کا اتحاد سرگرم عمل ہے۔
ہمارا مقصد پڑوسی برادر ملک یمن میں آئینی حکومت کی عمل داری بحال کرنا اور باغیوں کو پسپا کرتے ہوئے ملک میں امن وامان کا بول بالا کرنا ہے۔ایک سوال کے جواب میں سعودی مشیر دفاع نے کہا کہ ان کی حکومت نے یمن میں قیام امن کے لیے تمام تر سفارتی اور سیاسی کوششیں بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ اتحادی ممالک مصر اور اردن کی مددسے باغیوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں سے روکنے کی مساعی کی گئیں مگر ایران کی کھلی مداخلت کے نتیجے میں تنازع کے پرامن حل کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں.