اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کا چار صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری ہو گیا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے لکھا کہ الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا ہے ایک بڑی جماعت کو سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں نااہل قرار دیا گیا۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی جماعت کو نااہل قرار دینے کیلئے نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کے اضافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ فیصلے کی تشریح غلط ہوئی، سپریم کورٹ فیصلے کا مقصد کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنا نہیں تھا۔
اضافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح سے بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکالا گیا۔ بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکال کر ووٹرز کو بنیادی حق سے محروم کردیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ میں کہا کہ انتخابات سے قبل، دوران اور بعد میں کیا کیا شکایات تھیں؟ الیکشن کمیشن مکمل ریکارڈ دے۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ مخصوص نشستوں کا کیس صرف نشستوں کا نہیں، یہ اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی ووٹرز کے بنیادی آئینی حقوق کا کیس ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن مطمئن کرے کہ عام انتخابات میں سب کو یکساں مواقع دے کر اپنی آئینی ذمے داری پوری کی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ اکیلے میں محض تکنیکی نقطے نکال کر نہیں کیا جاسکتا، مخصوص نشستوں کا فیصلہ 8 فروری کے انتخابات کے تناظر میں کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ میں حکم دیا کہ الیکشن کمیشن تحریری بیان دے کہ کیا پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا قانونی عمل تھا؟
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا سپریم کورٹ فیصلے پر پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد حیثیت دی، الیکشن کمیشن کے فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں اور واضح ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے اضافی نوٹ میں کہا کہ بادی النظر میں صورتحال غیر معمولی تھی، نااہل ہونے والی سیاسی جماعت کے امیدوار اپنی حیثیت رکھنا چاہتے تھے۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد حیثیت دینے کا فیصلہ آر اوز پر ڈالنے کی کوشش کی، وکیل کے دلائل نے انتخابی عمل اور الیکشن کمیشن کے کردار پر سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں۔
جسٹس اظہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کا اثر سیاسی جماعت، ووٹرز اور مخصوص نشستوں سے محروم رکھنے پر پڑا، گورننس، پالیسیاں، قانون سازی اور عوام کا اعتماد کا انحصار انتخابی عمل پر ہوتا ہے۔