میں اس روز ایڈن متاثرین کے ساتھ ہی وفاقی کالونی لاہور میں قائم احتساب عدالت کے باہر موجود تھا جہاں اندر سولہ ارب روپوں میں اس فراڈ پر پلی بارگین کی منظوری ہو رہی تھی۔ یہ بات عجیب تھی کہ گیارہ ہزار متاثرین کو ان کی رقم کی ادائیگی کے لئے عدالت فیصلہ کر رہی تھی اور وہاں باہر کھڑے ہوئے سینکڑوں بزرگ مرد وخواتین سراپا احتجاج تھے کیونکہ انہیں اپنے ہی مقدمے میں اندر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی، وہ گیٹ سے اندر داخل ہوتے تھے تو پولیس والے انہیں مارتے تھے۔ وہ اس پلی بارگین کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، وہ بتا رہے تھے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال نے ان سے عہدے سے رخصت ہونے سے کچھ روز قبل باقاعدہ میٹنگ میں یقین دلایا تھا کہ وہ جانے سے پہلے اس کیس میں کم از کم پچیس ارب روپوں میں ڈیل کروا کے جائیں گے۔ متاثرین کا مطالبہ تھا کہ انہیں پلاٹ کے بدلے پلاٹ دئیے جائیں یا کم از کم چھتیس ارب روپے کیونکہ انہوں نے جو رقم ایڈن کو گھروں کے لئے ادا کی تھی اس کے لئے انہوں نے آج سے تیرہ ، چودہ برس پہلے نو ، دس ہزار روپے تولہ زیور بیچ کے ادا کی تھی اور جس روز ڈیل ہو رہی تھی اس روز سونے کی ایک تولہ قیمت ایک لاکھ چالیس ہزار روپے تھی یعنی کوئی پندرہ گنا زیادہ۔ اگر آپ سونے کی قیمت کو معیار نہیں بنانا چاہتے تو ڈالر کو بنا لیجئے، ا س وقت ڈالر پچاس، ساٹھ روپے کے لگ بھگ تھا اور آج دو سو روپوں سے اوپر یعنی اس میں بھی تین ، چارگنا اضافہ۔آپ اس کو معیار نہیں بنانا چاہتے تو پلاٹ کی قیمت کو ہی دیکھ لیجئے جو پلاٹ اس وقت بیس، تیس لاکھ کا تھا وہ اس وقت ڈیڑھ کروڑ روپوں پر پہنچا ہوا ہے یعنی پانچ گنا اضافہ ، سو آپ وہ رقم اتنی ہی اور اسی طرح ہی کیسے واپس کر سکتے ہیں؟
ایڈن متاثرین کہہ رہے تھے کہ اگر انہیں پچیس ارب بھی ملتے ہیں تو وہ گھاٹے کا سودا ہے مگر پھر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چیئرمین نیب جاتے جاتے سولہ ارب روپوں کی ڈیل پر دستخط کر کے چلے گئے۔ آپ متاثرین کو بدگمانی سے کیسے روک سکتے ہیں جب ان سے صریحاً ناانصافی ہور ہی ہو۔ ان کا خیال تھا کہ اس میںچیئرمین نیب سمیت دیگر نے کم از کم ایک، دو ارب روپوں کی دیہاڑی لگا کے مالکان کو اپنی ہی اعلان کر دہ پلی بارگین سے نو ارب روپوں کا ریلیف دے دیاہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ خود عدالت میں پیش کر دہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ایڈن کی موجود جائیدادوں کی ملکیت چوہتر ارب روپوں سے بھی زائد ہے سو یہ سیدھا سادا سودا ہے کہ آپ تین برسوں میں سولہ ارب روپے ادا کریں گے اور موجود جائیدادوں سے ساٹھ ارب روپوں کے لگ بھگ منافع سمیٹ کر لے جائیں گے۔ میں نے خود دیکھا کہ اس پلی بارگین کا فیصلہ ہونے کے ساتھ ہی ایڈن نے اپنی زمینوں پر دیواریں تعمیر کرنا شروع کر دیں یعنی قبضہ سنبھال لیا۔ متاثرین بتا رہے تھے کہ یہ سولہ ارب روپے بھی تین برسوں میں قسطوں کی صورت میں ملیں گے یعنی وہ رقم جو آپ نے تیرہ ، چودہ برس پہلے ادا کی تھی کم وبیش وہی واپس ہو گی اوروہ بھی مزید تین برسوں میں، جب روپیہ مزید ڈی ویلیو ہو چکا ہو گا اور چیزیں مزید مہنگی۔
اگر آپ میرے ساتھ ہوتے تو وہاں دیکھتے ان پندرہ برسوں میں جوتیاں چٹخانے والے جوانی سے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو گئے ، ایڈن متاثرین میں سے بہت بڑی تعداد میں اللہ کے حضور اپنا استغاثہ لے کر جا چکے۔ اللہ کے حضور تو ڈاکٹر امجد بھی جاچکا ہے جس نے یہ سب فراڈ کیا اور اس کا جنازہ تاریخ کا بدترین جنازہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم لوگ عمومی طور پر مرنے والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں مگراس کے جنازے پر ایڈن متاثرین حملہ کر رہے تھے،اس پر جوتے برسا رہے تھے۔ اس کی قبر پر گندگی پھینک دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں پہرا رکھنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر امجد جب کفن میں تھا تو اس کفن میں کوئی جیب نہیں تھی اور وہ متاثرین سے لوٹے ہوئے پیسے ساتھ لے کر نہیں جا رہا تھا۔ اب اس کی بیوہ انجم امجد اس کی وارث ہے اور متاثرین سے ہاتھ یہ کیا گیا ہے کہ اس کے بیٹوں کو اس کیس سے نکال دیا گیا ہے یعنی کل کلاں اگر یہ عورت بھی مر جاتی ہے تو یہ کیس ہی ختم ہوجائے گا،کوئی یہ رقم دینے دلانے والا بھی نہیں رہے گا۔
ایڈن کا کیس پورے ریاستی نظام کا نوحہ ہے۔ انہیں لوٹنے والا صرف ڈاکٹر امجد ہی نہیں ہے بلکہ اس میں سب سے حصے داری ڈالی ہے ۔ ہم اپنے ملک میں کسی بھی فراڈ کے حل کے لئے تین اداروں کی طرف دیکھ سکتے ہیں، پہلی حکومت ہے، دوسری عدلیہ ہے اور تیسرا نیب ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی ایڈن متاثرین کے کیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور ساڑھے تین برس میں حکومتی سطح پر کوئی پیش رفت نہ کی گئی۔ عدلیہ کا معاملہ بھی سن لیجئے کہ وکلا تحریک کے نتیجے میں بھرپورعوامی اعتماد کے ساتھ بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس فراڈ کا سوو موٹو نوٹس لیا تو متاثرین کو انصاف دینے کے بجائے مجرموں کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا۔ ڈاکٹر امجد کا بیٹا مرتضیٰ امجد چیف جسٹس کا داماد بن گیا اوراس کے بعد عدلیہ سے بھی جواب ہو گیا۔ اب نیب ہی رہ گیا تھا اور اس نے بھی ان سے منطقی اور زمینی شہادتوں کے مطابق دیہاڑی لگا لی۔ اب ایڈن متاثرین کہہ رہے ہیں کہ وہ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ کریں گے اور میں سوچ رہا ہوں کہ ماضی کے واقعات کے تسلسل میں اب کیا ہو گا اور میرا گمان ہے کہ وہی کچھ ہو گا جو پہلے ہوتاآیا ہے۔ یہ مجموعی طور پر ایک بنانا ری پبلک کی کہانی ہے جس میں ہر طاقتور شخص ہر کمزور شخص کو لوٹتا ہے اور اپنا حصہ لے کر دوسری طرف نکل جاتا ہے۔
میں نے نیب کو اس کے سیاسی کیسوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی شہرت کا حامل پایا،وہ حکومتوں کی ہاتھوں کی چھڑی رہا جس سے مخالفین کو ہانکا جاتا رہا، جو نہ ہانکا جا سکا اسے مارا جاتا رہا مگر میرا خیال تھا کہ اس ادارے نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین کو رقوم دلانے میں مثبت کردارادا کیا ہے اور اب ایڈن کے معاملات کو دیکھتے ہوئے میری یہ واحد اچھی رائے بھی قائم نہیں رہی۔ اب میرا خیال ہے کہ نیب نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے بھی خوب مال بنایا ہے ۔اس صورتحال کا منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ احتساب کے اس ادارے کا بھی احتساب ہو مگر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک مہذب ریاست بننے میں کم از کم دو، چار صدیاں لگ جائیں گی، ایک ایسی ریاست جہاں سیاسی استحکام ہو، جہاں انصاف ملتا ہو اور جہاں طاقت کی نہیں بلکہ قانون کی بالادستی ہو۔ ایڈن متاثرین کو ہر طاقتور نے اپنے اپنے تئیں لوٹا ہے اور یقین کیجئے کہ اس میں میڈیا بھی شامل ہے کہ جب وہ احتجاج کرتے ہیں تو کہیں خبر تک نہیں چلتی کیونکہ ان میڈیا ہاؤسز کو لٹیروں سے اشتہار ملتے ہیں اور یوں میڈیا بھی اس لاش سے اپنے حصے کی بوٹی کھینچ کے لے جاتا ہے۔
( نئی بات اخبار، نیونیوز اور لاہوررنگ کے مالکان کا شکریہ کہ انہوں نے ہمیشہ غریب اورمظلوم کا ساتھ دیا اوراس کے لئے کاروباری نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی۔ان کے حق میں پروگراموں کا چلنا اوراس کالم کا شائع ہونا بھی اس کا ثبوت ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے)