مختلف ادوار میں حکومتوں کے بلند و بانگ دعوؤں اور منصوبوں کے باوجود ہمارے ہاں زرعی صورتحال بہت پسماندہ اور غیر تسلی بخش ہے۔ بھاری غیر ملکی امداد اوپر کی سطح پر تقسیم ہو جاتی ہے جب کہ غریب ہاری اور کاشتکار مسلسل غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ غیر ملکی امداد کے سارے فوائد بڑے بڑے زمینداروں اور وڈیروں تک ہی محدود رہتے ہیں، ملک کی بہت سی اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے۔ غریب کسانوں اور ہاریوں کی ابتر حالت کے اثرات ملکی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ زرعی ترقی کے لئے درمیانے اور چھوٹے کسانوں پر خصوصی توجو دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں 96فیصد کسان اسی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں۔زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جائے اور زرعی برآمدات میں اضافے کے لئے کوالٹی اور بین الاقوامی قوانین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے نتیجہ خیز کوششیں کی جانی چاہئے۔ زرعی کاروبار کو وسعت دینے کے لئے ایگرو بیسڈ انڈسٹری، لائیو سٹاک، فشریز اور ہارٹیکلچر میں ترقیاتی پراجیکٹ چلانے چاہئیں۔ ہمارے ماضی کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں جب پہلا پانچ سالہ منصوبہ بنایا گیا تو زراعت کو بہت اہمیت دی گئی اور سارے منصوبے کی تقریباً ایک چوتھائی رقم زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے مخصوص کی گئی۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں زراعت اور پانی کو مزید اہمیت دی گئی اور اس شعبہ میں مخصوص کردہ رقم کو بڑھا کر سارے منصوبے کا تقریباً نصف کر دیا گیا۔ اس میں پانی کاحصہ بھی شامل کر دیا گیاکیونکہ اس وقت منگلا اور تربیلا ڈیم بن رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد کے منصوبوں میں زرعی شعبہ کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اگلے ترقیاتی منصوبوں میں کم ہوتی ہوتی چھٹے پانچ سالہ منصوبے میں کم ہو کر 15.53فیصد رہ گئی اور سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی کم و بیش کچھ ایسی ہی صورتحال رہی۔
ترقیاتی منصوبے بنانے والوں نے زراعت کی بجائے صنعت کو زیادہ اہمیت دی تا کہ ملک صنعتی شعبہ میں ترقی کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صنعت کی ترقی بہت ضروری ہے لیکن زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں زراعت کوہمیشہ خاص مقام حاصل رہے گا۔ ہمارے ملک کے 70فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں، ان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے، یہی باشندے ملک کی صنعتی پیداوار کا بڑا حصہ اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ لہٰذا صنعتی پیداوار میں اضافہ کا دارومدار بھی بڑی حد تک زراعت سے وابستہ افرادپر ہے۔ جوں جوں ان کی معاشی حالت بہتر ہو گی اور ان کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو گا اسی طرح صنعتی پیداوار کی زیادہ کھپت ہو گی۔ حالیہ تجربات سے دیکھ لیا ہے کہ ہم نے زراعت سے فنڈز نکال کر صنعتی شعبے کی ترقی کے لئے تفویض کر دئے لیکن اب جب صنعتی سیکٹر بحران کا شکار ہے تو اس طرح زراعت اور صنعت دونوں ہی زوال کی زد میں ہیں اگر دونوں شعبوں کو
یکساں رفتار سے ترقی دی جاتی تو آج دونوں شعبے ملکی ترقی میں یکساں اعتبار سے کردار ادا کر رہے ہوتے اور ایک وقت میں کم از کم ایک شعبہ معیشت کو سنبھالا دینے کی پوزیشن میں ہوتا۔
بجٹ کا اعلان ہو گیا ہے لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی بجٹ مین زرعی شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بجٹ میں زراعت کی ترقی کے لئے مختلف تجاویز کو اہمیت دی جانی چاہئے تھی اور اس کی بہتری کے لئے اقدامات اور اس سیکٹر کے لئے وافر فنڈز رکھے جانے چاہئیں تھے۔ یہ صورتحال بڑی دلچسپ ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کے کسان 23اقسام کے لگان یا زرعی ٹیکس ششماہی ادا کر رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں دیا جا رہا ہے جب کہ کسان کو ملک کا سب سے بڑا ٹیکس گزار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دیہاتی ملک کے کل ٹیکس کا 65فیصد ادا کرتے ہیں جب کہ شہری آبادی باقی 35فیصد ادا کرتی ہے۔ کسان پانی، کھاد، بیج، ادویات، ٹریکٹر، ہارویسٹر اور تمام دیگر زرعی آلات پر ریگولیٹری اور اس طرح کی دوسری ڈیوٹیاں ادا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ زرعی آمدن سمیت جو چیز بھی وہ کاشتکاری کے عمل کے دوران استعمال کرتے ہیں کسی نہ کسی طرح ان کو ان پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس طرح سے پیداواری قیمت زیادہ ہونے سے نہ تو کاشتکار کو فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی صارف کو۔
اگر حکومت واقعی ہی زرعی شعبے کو ترقی دینے کی خواہاں ہے تو اسے ہر صورت میں زرعی شعبہ کے لئے بجٹ میں زیادہ فنڈز مختص کرنے ہوں گے۔ زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لئے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہو گا اور زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے ہر شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کرنا پڑے گا۔ دنیا میں زرعی شعبہ بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے اس کے برعکس پاکستانی زرعی شعبہ اس حد تک ترقی یافتہ نہیں ہے اور فی ایکرڑپیداوار بھی دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے۔ یہاں صرف چند ایک ترقی یافتہ کاشتکاروں نے اچھے نتائج حاصل کئے ہیں جب کہ باقی تمام ملک میں زرعی پیداوار کے شعبہ میں مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک صرف 50فیصد پیداواری صلاحیتوں کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ اگر بھرپور کوشش کی جائے تو زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ کسانوں میں تعلیم کا فقدان ہے اور کسانوں کی اکثریت جدید ٹیکنالوجی سے نابلد ہے۔ اس کے برعکس یورپ کا ایک کاشتکار جو جدید ٹیکنالوجی مثلاً کمپیوٹر وغیرہ کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے دفتر میں بیٹھ کر فصلوں کے لئے زمین کی تیاری، فصلوں کی کٹائی و بوائی، ان پر زرعی ادویات کے چھڑکاؤ اور انہیں بر وقت پانی کی فراہمی جیسے کٹھن کام تن تنہا احسن طریقہ سے انجام دے سکتا ہے۔ کاشت کار کو جدید ٹیکنالوجی کو مناسب اور بہتر طور پر استعمال میں لانا، آسان شرائط پر جدید زرعی ٹیکنالوجی خریدنے کے لئے مختلف قسم کے زرعی قرضہ جات کی فراہمی کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص کئے جانے چاہئے۔ پاکستان کے کل رقبہ میں سے 34ملین ایکڑ اراضی قابلِ کاشت ہے جس میں سے 17.58ملین ہیکٹر رقبہ پر کاشتکاری آبپاشی کے مصنوعی طریقوں سے کی جاتی ہے جب کہ 3.96 ملین ہیکٹر رقبہ پر کاشتکاری کا ذریعہ بارش کا پانی ہے بقیہ قابلِ کاشت اراضی پر کاشتکاری نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ قابلِ کاشت غیر آباد اراضی کو قابلِ کاشت لانے کے لئے آبپاشی کے نئے ذرائع تلاش کرنے اور پانی کی سٹوریج بڑھانے پرتوجو مرکوز کی جانی چاہئے کیونکہ پانی زرعی مداخل میں سے ایک ایسا عنصر ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اس کا قطرہ قطرہ استعمال ہونا چاہئے۔
زراعت کا فروغ اور کسانوں کی خوشحالی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اگر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے تو ملک میں زرعی انقلاب لانا ہوگا اور زرعی انقلاب لانے کے لئے ہمیں کاشتکاروں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی اور ان کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہوگا۔ زراعت کو اس لئے بھی زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک کو خود کفالت کی منازل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ زرعی خود کفالت میں ہی قوم کی سر بلندی ہے اور جس ملک میں اناج نہیں اس کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ،زراعت ہی ہماری قوم کی غربت دور کر سکتی ہے۔