بادشاہ سلامت تخت پر جلوہ افروز تھے، درباری کورنش بجا لاتے تھے اور خدام ادب سے ہاتھ باندھے کھڑے تھے، فریادی باری باری آتے اور اپنا دکھڑا سنارہے تھے، اتنے میں ایک خستہ حال نوجوان دربار میں داخل ہوا، اس کے بال بڑھے ہوئے تھے اور ظاہری صورت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ ڈاڑھی کے بال الجھے ہوئے اور مونچھیں منہ میں گھس رہی تھیں۔ شکل سے انتہائی غریب اور حالات کا مارا دکھائی دیتا تھا، اس نے گردن جھکائی،ہاتھ سینے پر رکھا اور آگے کو جھک کر سلام عرض کیا، بادشاہ نے مدعا بیان کرنے کی اجازت دی تو نوجوان گویاہوا:”بادشاہ سلامت! میں دور دراز گاؤں میں رہتا ہوں، آپ کی انصاف پسندی کی خبر سن کر دربار میں حاضر ہوا ہوں، میرے والد پندرہ سال قبل وفات پا گئے تھے، تب میں چھوٹا تھا اور والد کی ساری جمع پونجی رشتہ داروں نے ہڑپ کر لی تھی، اب میں اکیلا والدہ اور سات بہنوں کا پیٹ نہیں پال سکتا، اللہ آپ کا اقبال بلند کرے مجھے میرے والد کی وراثت واپس دلائی جائی۔“ نوجوان نے داستان اتنے کرب سے بیان کی کہ بادشاہ سلامت اور تمام حاضرین سکتہ میں آ گئے، بادشاہ سلامت نے فوری طور پر دس ہزار اشرفیاں دینے کا حکم دیا او ر متعلقہ علاقے کے عمال کو نوجوان کا مسئلہ حل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ تین ماہ بعد بادشاہ کو بتایا گیا کہ نوجوان نے جھوٹ بولا تھا اورمتعلقہ علاقے میں ایسا کوئی گھر نہیں ہے۔ بادشاہ سلامت غصے میں آ گئے اور آئندہ کے لیے حکم جاری کر دیاکہ جس شخص نے جھوٹ بولاا سے پانچ دینار جرمانہ ہو گا۔ اس اعلان کے بعد بادشاہ اور وزیر بھیس بدل کر عوام میں چلے گئے، سارا دن عوام میں گھومنے کے بعد شام کو تھک ہار کے وہ ایک تاجر کے پاس رک گئے، بادشاہ نے تاجر سے پوچھا:”تمہاری عمر کتنی ہے، تمہاری دولت کا کیا حساب ہے اور تمہارے کتنے بچے ہیں“ تاجر نے جواب دیا:”میری عمر بیس سال ہے، ایک بیٹا اوردولت ستر ہزار دینار ہے۔“بادشاہ نے تحقیق کی تو پتا چلا تاجر نے جھوٹ بولا تھا، بادشاہ نے اگلے روز اسے دربار میں طلب کر لیا،بادشاہ نے جھوٹ بولنے پرجرمانہ عائد کرنے کی سزا سنائی تو تاجر چیخ پڑا:”بادشاہ سلامت!میں نے زندگی کے صرف بیس سال ہی نیک کاموں میں گزارے ہیں اس لیے صر ف ان بیس برسوں کو اپنی اصل عمر سمجھتا ہوں،
اور زندگی میں ستر ہزار دینار سے میں نے ایک مسجد تعمیر کرائی تھی صرف اسے ہی اپنی دولت سمجھتا ہوں اور اولاد میں چار بچے نالائق، نافرمان اور بداخلاق ہیں، صرف ایک بیٹا نیک اور فرمانبردار ہے اس لیے میں صرف اسے ہی حقیقی اولاد سمجھتا ہوں۔“بادشاہ سلامت نے جواب سنا تو خوش ہوگئے اور فوری طور پر تاجر کو انعام کا حکم دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا اصل وقت وہی ہے جسے ہم نے دنیا و آخرت کے اعتبار سے قیمتی بنایا ہے، وقت وہ دولت ہے جس کاکوئی نعم البدل نہیں،ہم یہاں نامور اہل علم کے کچھ واقعات رقم کرتے ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی اور وقت نے انہیں امر کر دیا۔ امام محمدؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ دن رات مطالعہ اورکتب لکھنے میں مصروف رہتے تھے،ان کی کتب کی تعداد ایک ہزارتک بیان کی جاتی ہے، ان کا انداز یہ تھا کہ مطالعہ کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے، وہیں بیٹھ کر کھانے اور سونے کا معمول تھا۔ بسا اوقات مشغولیت اس درجہ کی ہوجاتی تھی کہ کھانے اور سونے کا بھی ہو ش نہ رہتا تھا۔ امام رازیؒ کے ہاں وقت کی اہمیت اس درجہ کی تھی کہ اکثر انہیں یہ افسوس رہتا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے، وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا متبحر عالم اور امام بناد یا تھاکہ دنیا آج بھی ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی وقت کے بڑے قدر دان تھے، کسی وقت فارغ نہ بیٹھتے تھے، تین مشغلوں میں سے کسی ایک میں ضرور مصروف رہتے تھے، مطالعہ، تصنیف و تالیف اور عبادت۔جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہو تے اور درمیان میں قلم کا نو ک خراب ہو جاتا تو اس کو درست کر نے کے لیے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا اس کو بھی ضائع نہ کر تے، ذکر الٰہی زبان پر جاری رہتا اور نوک درست کرتے رہتے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی بھی نہایت منتظم المزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے، وقت کے لمحات ضائع نہیں ہو نے دیتے تھے،کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے غرض کہ ہر چیز کا ایک نظام الاوقات متعین تھا اور اس پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بندی جو حضرت تھانوی کے استاذ تھے، ایک بار مہمان ہو ئے آپ نے راحت کے سب ضروری انتظامات کر دیے، جب تصنیف کا وقت ہوا توبا ادب عرض کیا ”: حضرت! میں اس وقت کچھ لکھا کر تا ہوں، اگر اجازت ہو تو کچھ دیر لکھنے کے بعد حاضر ہو جاؤں۔“ حضرت شیخ الہند نے فرمایا ”:ضرور لکھو! میری وجہ سے اپنا حرج ہر گز نہ کرو۔“حضرت تھانوی کہتے ہیں کہ گو اس روز دل لکھنے میں لگا نہیں لیکن میں نے ناغہ نہیں ہو نے دیاتاکہ بے بر کتی نہ ہو، تھو ڑا سا لکھ کر پھر حاضر خدمت ہو گیا۔“ آخر عمر میں حضرت تھانوی بہت ضعیف ہو گئے تھے، بعض حضرات نے وعظ وغیرہ کم کر نے کا مشورہ دیا کہ بات کر نے میں مشکل ہو گی تو فر ما تے ”مگر میں سو چتا ہوں وہ لمحاتِ زندگی کس کام کے جو کسی کی خدمت اورنفع رسانی میں صرف نہ ہوں۔“مولانا عبدالحئی فرنگی محلی ہندوستان کے مشہور عالم گزرے ہیں، ان کی جو مطالعہ گاہ تھی اس کے تین در وازے تھے، ان کے والد نے تینوں در وازوں پر جو تے رکھوا ئے تھے؛ تاکہ اگر ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو جو توں کے لیے ایک آدھا منٹ بھی ضائع نہ ہو۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی کہ وہ کہتا جا رہا تھا کہ اے لو گو! مجھ پر رحم کرو میرے پاس ایسا سر مایہ ہے کہ ہر لمحہ تھو ڑا تھو ڑا ختم ہو تا جا رہا ہے، ہماری حالت بھی اسی طرح ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھو ڑی عمر ختم ہو تی جارہی ہے، اس کے گھلنے سے پہلے بیچنے کی فکرکرو، فراغت کے وقت کو مشغولی سے پہلے غنیمت جانو، زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔ شیخ الحدیث مولانا زکر یا ایک عر صہ تک صرف دو پہر کا کھاناکھاتے رہے شام کا کھا نا تناول ہی نہیں کر تے تھے،وجہ اس کی یہ بتاتے کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی میں شام کو مطالعہ میں غرق ہو تا تھا، وہ لقمہ میرے منہ میں دیا کر تی تھی، اس طرح مطالعہ کا حر ج نہ ہو تا تھا؛ لیکن جب سے ان کا انتقال ہو گیا اب کوئی میری اتنی ناز بر داری کر نے والا نہیں رہا، مجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارا نہیں اس لیے شام کاکھانا ہی تر ک کر دیا۔ مولانا محمد یو سف کے حالات میں لکھا ہے کہ انہیں کم عمر ی سے ہی تعلیم کاشوق تھا، عام لڑکوں کی طرح وہ اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے تھے اورنہ ہی کھیل کو د میں اپنا وقت ضائع کر تے تھے۔ جب فقہ وحدیث کی تعلیم شروع کی تو اس کے حصول میں پوری طرح مشغول ہو گئے، دن کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو تا جس میں خالی بیٹھتے اور کوئی کتاب ہاتھ میں نہ ہو تی اور کسی ایسے کا م کو پسند نہیں کرتے تھے جو تعلیم میں کسی طرح مخل ہوتا تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت کی قدر کی اور وقت نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، آج سوشل میڈیا کے بے ہنگام ٹریفک میں بہنے والے کیا جانیں کہ وقت کتنی بڑی دولت ہے اور اسے ضائع کر کے ہم اپنی دنیا و آخرت دونوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
وقت اور زندگی!
11:17 AM, 29 Jun, 2021