اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیوٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز (پامی) کی پاکستان میڈیکل کمیشن کے نئی رولز کیخلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست پر سماعت کی۔ پامی کی جانب سے بیرسٹر اسد رحیم عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس کرتے ہیں، وہ معاونت کریں گے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کق طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔ خیال رہے کہ پامی نے پی ایم سی کے نئے قوانین کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز (پامی) کے صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے کہا تھا کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو نااہل کے ہاتھ دے کر تباہ کیا جا رہا ہے، یہ آٹے اور چینی سے بڑا سکینڈل ہے جس کی وجہ سے ہیلتھ سیکٹر تباہ ہو رہا ہے۔
صدر پامی پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بدقسمتی سے ایک وکیل کے ہاتھ ڈینٹل اور میڈیکل کالجز کا نظام دیدیا گیا ہے جس نے پبلک میڈیکل سیکٹر اور پرائیویٹ میڈیکل سیکٹر کے داخلے ایک ساتھ کھول دیئے ، انہوں نے راتوں رات ایم ڈی کیٹ کی شرط رکھ دی جس سے نیا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔
صدر پامی کا کہنا تھا کہ سندھ کے 12 میڈیکل کالجز میں داخلے نہیں ہوسکے اور وہ سب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ، ایم ڈی کیٹ کے نام پر یہ آدھے کالجز بند کرنا چاہتے ہیں ۔ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال 2020ء میں آپ کا قانون آیا ہے لیکن 2016ء سے جو طالب علم میڈیکل کالجز میں داخل ہے وہ دوبارہ ٹیسٹ کیسے دے سکتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے کہا کہ آپ نے کیسی پی ایم سی بنائی ہے جس میں کوئی بات نہ کرسکے ، جو طالبعلم یونیورسٹی میں تمام امتحانات پاس کرکے این ایل ای میں فیل ہوگا وہ خود کشی کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ علی رضا صاحب کو میڈیکل کالجز کے معاملات کا ذرہ برابر بھی علم نہیں ، اگر سندھ کے میڈیکل کالجز میں داخلے نہیں ہوں گے تو پنجاب میں بھی نہیں ہوں گے ۔
صدر پامی نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری ، فرخ حبیب ، نوشیرواں برکی اور فیصل سلطان پر مشتمل کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ کمیٹی ہماری بات سنے اور اس اہم اور سنگین مسئلے کا کوئی حل نکالے ، وزیراعظم ہمیں ذاتی طور پر خود وقت دیں اور ہماری بات سنیں جبکہ یہ کمیٹی ہمارے وائٹ پیپر کا جائزہ لے اور جو مسائل درپیش ہیں اسے حل کرائے ۔