یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معا شرے میں جا ری نا انصا فیوں اور ظلم کی حکمرانی کو جس شدت سے کوئی شاعر محسوس کر سکتا ہے، اس کی سطح تک کو بھی کوئی عام پڑھا لکھا شخص نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے شعراکا ایسا کلا م ان کے تا ریخ میں امر ہو جا نے کا سبب بنتا ہے۔مگر میراسوال یہ ہے کہ کیا ایسے تما م شعراجوکلام پہ اس قدر ت رکھتے ہوں ،تا ریخ میں اپنا جا ئز مقا م حا صل کر پا تے ہیں؟ بد قسمتی سے جواب بہت بڑے ’نہیں‘ میں ہے۔ بے شک ایسے شعرا اور ان کے کلام کو بھلا دینا فنِ شا عری کے سا تھ ظلم بر تنے کے ز مرے میں آ تا ہے۔ایک ایسے ہی قا در الکلا م شاعر شمس الدین وثیر ، جن کا تعلق سیا لکو ٹ کے نو احی علا قے سے تھا، خا موشی اور گمنامی کی زندگی گذار کر محض اڑتا لیس بر س کی عمر میں 2003میں اس جہا نِ فا نی سے کو چ کر گئے تھے۔ نمو نہ کے طور پر ان کے چند شعر ملا حظہ فر مائیے اور دیکھیے ہما رے آ ج کے حالا ت کے سا تھ وہ کس قدر منطبق ہیں:
ظلمت شب میں بصارت کی دہائی کیسی؟
بے گناہوں کے سلاسل سے رہائی کیسی؟
مالک ارض و سما تو ہے اگر ربّ جلیل
پھر یہ فرعون کی ہم پہ ہے خدائی کیسی؟
انگلیاں کانوں میں دیئے دبکے ہوئے بیٹھے ہیں
زندہ لاشوں کے لیے شعلہ نوائی کیسی؟
جب وکالت بھی ہو تیری، عدالت بھی ہو تیری
فیصلہ پہلے سے طے ہو تو صفائی کیسی؟
سچ کو باطل سے ملائو نہ، کرو شرم و حیا
ارضِ پاک پہ یہ کذب سرائی کیسی؟
سوکھے اشجار کی مانند جلا، راکھ ہوا
تو نے اس شہر کو یہ آگ لگائی کیسی؟
جبر سے چھیننا لوگوں کی جمع پونجی کو
خود ہی سوچو تو بھلا ہے یہ کمائی کیسی؟
سچ تو ہے سچ، سر نیزہ نظر آتا ہے سچ
سچ کی اس دھرتی پہ یہ کذب سرائی کیسی؟
پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود کئی مثبت اور اچھی پیش رفت بھی ہوتی نظر آ رہی ہے پاکستان میں اتنا پوٹینشل ہے کہ اتنے سنگین حالات میں بھی اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف سے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سیکریٹری جنرل عانگ منگ نے لاہور میں ملاقات کی۔ وزیراعظم شریف نے انھیں تنظیم کے مقاصد کی تکمیل میں پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ایس سی او چارٹر اور شنگھائی اسپرٹ کے اصولوں کے لیے پاکستان کے مضبوط عزم کا اعادہ کیا۔ ایک ٹویٹ میں شہبازشریف نے کہا شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں، عالمی سطح پر تیل،غذائی اجناس کی بڑھتی قیمتوں کے درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم کردار ہے۔ پاکستان تنظیم کے دیگر رکن ممالک سے تجارتی و معاشی تعاون کے فروغ کا خواہاں ہے۔شنگھائی تنظیم میں ایسے ممالک موجود ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔ ان میں سرفہرست چین اور وسط ایشیائی ریاستیں ہیں شنگھائی تنظیم کے ممالک پاکستان کی مدد اور تجارت کرنے پر تیار ہیں اور امید یہی کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ ادھر دوسری خبر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے زرمبادلہ کی طلب پوری کرنے کے لیے سونے کے ذخائر رہن رکھنے کے امکان کو مسترد کردیا۔ ڈپٹی گورنرا سٹیٹ بینک عنایت حسین کے مطابق پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً نو اعشاریہ تین ارب ڈالر ہیں، پاکستان کے پاس موجود سونے کی قدر تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر ہے جو کہ ذخائر کے علاوہ ہے، ابھی اس قسم کی کوئی صورتِ حال نہیں ہے کہ سونے کو رہن
رکھنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی زر مبادلہ کی سطح اِس وقت خطرناک نہیں ہے، دسمبر سے لے کر اب تک روپے کی قدر میں اٹھارہ فیصد کمی آئی ہے جس میں سے بارہ فیصد کمی کی وجہ امریکی ڈالر کی قدر میں بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہے، روپے کی قدر میں کمی کی دوسری وجہ طلب اور رسد ہے، ڈالر کی رسد کم اور طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے روپے پر دباؤ تھا، ہماری توقعات یہ ہیں کہ درآمدات میں سست روی آئے گی جس سے طلب اور رسد کا فرق بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔ڈپٹی گورنر نے کہا کہ کسی بھی بینک یا آئل کمپنی سے حالیہ دنوں میں ایسی شکایت نہیں ملی کہ انھیں ایل سی(LC) کھولنے میں مشکل ہو رہی ہو، پاکستان میں فارن ایکسچینج مارکیٹ پوری طرح فعال ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھی خبر اس طرح ہے کہ ملک میں پاکستان کو سری لنکا بنانے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں اس کا اثر زائل ہو جائے گا۔ بلاشبہ پاکستان کی حیثیت اور پوزیشن سری لنکا سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ اس لیے پاکستان کبھی سری لنکا جیسے معاشی حالات سے دوچار نہیں ہو گاان شاء اللہ۔ وفاقی وزیربرائے سرمایہ کاری بورڈچوہدری سالک حسین نے گزشتہ روز کہاہے کہ پاکستان کومالیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان اور چین رینمن بی(آر ایم بی)اور پاکستانی روپے میں لین دین کرنے کے لیے معاہدے کے قریب ہیں۔
وفاقی وزیربرائے سرمایہ کاری بورڈ نے گوادرپروکوبتایاکہ اس معاملے کوحتمی شکل دینے کے لیے پاکستان اورچین کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ ہم جلد ہی امریکی ڈالرکے ساتھ آرایم بی میں ڈیل کرسکتے ہیں۔دونوں آپشنزکواستعمال کیاجاسکتاہے۔ سرکاری تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک کی کرنسیوں کی شرح تبادلہ چائنا فارن ایکسچینج ٹریڈنگ سسٹم(سی ایف ای ٹی ایس) اورچین اورپاکستان میں سرحدپارکرنسی مارکیٹ کے طورپراعلان کردہ مجازبینکوں میں طے کی جائے گی۔ چھنگ ہائی انٹرنیشنل ایکسچینجز اینڈ کوآپریشن فورم آن ایکو سولائزیشن 2022 کا انعقاد چین کے شمال مغربی صوبے چھنگ ہائی کے شہر شی ننگ میں کیا گیا۔ چین کی شی ننگ (نیشنل) اکنامک اینڈ ٹیکنالاجیکل ڈویلپمنٹ زون مینجمنٹ کمیٹی اور پاکستان کی اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی (ایس ٹی زیڈ اے) نے وڈیو لنک کے ذریعے فورم کی ایک دستخطی تقریب کے دوران دوستانہ تعاون پر مبنی تعلقات کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ بھی ایک خوش کن بات ہے اس سے بھی پاکستان کی معیشت پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی موجود ہیں اور سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے پر بھی تیار ہیں جب کہ امریکا اور دیگر ملکوں کے ساتھ کرنسی معاملات بھی بہتری کی جاتے نظر آ رہے ہیں۔