روایت ہے کہ ایک سادہ لوح کسان نے پٹواری کے خلاف ایک درخواست بڑی راز داری سے بورڈ آف ریونیو کو ارسال کی جس میں اس کی تمام کارستانیوں کا تذکرہ کیا اور انصاف کی اپیل کی،کسان اب پر اُمید تھا کہ اس کے ساتھ لازمی انصاف ہو گا اور پٹواری کو اپنی بد اعمالیوں کی سزا بھی ملے گی، ایک روز گائوں کے نمبردار نے چوکیدار کے ہاتھ کہلوا بھیجا کہ وہ اپنی درخواست کے سلسلہ میں پٹواری سے پٹوار خانہ میں ملے، کسان کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے کہ آج حق کی فتح ہوگی، پٹواری اپنے کئے پر نادم ہو گا، جونہی وہ اس کے پاس پہنچا تو پٹواری کا لب ولہجہ دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ معاملہ اسکی سوچ کے بالکل برعکس ہے، پٹواری نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہمارے خلاف بڑی درخواستیں دیتے ہوں، تمہارا مسئلہ کیا ہے اوپر والوں نے اس سے رپورٹ مانگی ہے، مذکورہ درخواست بورڈ آف ریونیو سے نیچے سفر کرتی پٹواری تک پہنچی تھی، تمام افسران نے اپنے ماتحت سے روایتی طور پر رپورٹ مانگی تھی، بات پٹواری کی رپورٹ تک آن پہنچی جس کے خلاف درخواست دی گئی تھی، اس بات سے کسان نے ایک ہی سبق حاصل کیا کہ بدیشی نظام میں انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری انھیں دی جاتی ہے جو اس کا خون کرتے ہیں۔
یہ رویہ انتظامیہ کا نہیں عدلیہ کا بھی ہے بہت سی روایات موجود ہیں، راقم نے بھی عدالت عالیہ لاہور بنچ بہاولپور میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی بابت چار سال قبل درخواست دائر کی،جس میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، رئیس جامعہ، ڈائریکٹر ریسرچ، سابق چیئر پرسن شعبہ سیاسیات و دیگر کو پارٹی بنایا دو سال بعد شنوائی ہوئی، معزز عدالت نے بطور مدعی کے مجھے ذاتی شنوائی کے لئے وائس چانسلر کے پاس بھیج دیا، اس مرحلہ سے گزر گئے تو ان کے فیصلہ کو دوبارہ عدالت عالیہ میں چیلنج کر دیا اور موقف اپنایا کہ موصوف کا فیصلہ قانون اور ضابطہ کے خلاف ہے، لہٰذا ریلیف فراہم کیا جائے، ہماری رٹ منظور ہوگئی ، پھر سے شنوائی ہوئی،معزز عدالت نے وائس چانسلر کے فیصلہ کو خلاف ضابطہ قرار د ے کر رد کیااسے تعصب پر مبنی قرار دیا اور ہدایت کی کہ فیصلہ کرتے ہوئے سابقہ فیصلہ کو سامنے نہ رکھا جائے لیکن بد قسمتی سے دوبارہ رئیس جامعہ کے پاس ذاتی شنوائی کے لئے بھیج دیا، اس طرح کے فیصلوں
پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
میر بھی کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
کم وبیش یہی کلچر ہماری ریاست میں آباد ہے، اس کی وجہ سے کوئی شہری بھی انتظامیہ اور عدلیہ کے خلاف شکایت کرنے کا رسک ہی نہیں لیتا، جس کا یہ نتیجہ ہے اب ہر سائل نے ریلیف لینے کے لئے ناجائز طرز عمل اختیاکیاہے، انتظامیہ ہو یا عدلیہ اس میں رشوت کا بازار گرم ہے، عام شہری کا اعتماد ان اداروں سے بھی اٹھ گیا ہے۔
مالی اور سماجی مراعات کے مقابلہ میںعالمی سطح پر جو رینکنگ ان اداروں کی ہے وہ قطعی قابل رشک نہیں، معروف قانون دان شریف پیرزادہ کہتے ہیں۔کہ وفاقی عدلیہ بہتر انداز میں کام کررہی تھی خرابی1954 میں اس وقت پیدا ہوئی جب چیف جسٹس عبد الرشید ریٹارڈ ہوئے تو اس کے بعد جسٹس اکرام اللہ جن کا تعلق ڈھاکہ سے تھا انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس منیر احمد کو لا کر یہ عہدہ دے گیا، بقول انکے ایسی صورت حال انڈیا میں پیدا ہوئی جب نہرو نے بمبئی ہائی کورٹ سے ایک جسٹس کو لا کر چیف جسٹس آف انڈیا بنانے کی کوشش کی تو تمام ججوں نے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی جبکہ ہمارے ہاں جسٹس منیر کی تعیناتی پر کوئی رد عمل نہ ہوا، اس فیصلہ نے نہ صرف جمہوریت بلکہ ملکی سالمیت کو بہت نقصان پہنچایا۔
عدالتی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے، معزز عدلیہ نے ہر دور میں مصلحت کو قومی مفاد پر ترجیح دی ہے، سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کہا کرتے تھے کہ سول اور آمرانہ حکومتوں نے آزاد عدلیہ پروان نہیں چڑھنے نہیں دی، مثلاً جسٹس انوار الحق نے اپنے فیصلہ میں جنرل یحییٰ کے مارشل لاء کو تو غاصبانہ قرار دیا مگر ضیاء الحق کی حکومت کوجائز کہا،مسٹر صدیقی کہتے ہیں جب گیارہ سال تک مارشل لاء لگا رہا تو عدالت عظمیٰ کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے تھی جو اس نے ضیاء الحق کی حمایت میں دیا تھا،اسی طرح جنرل مشرف پانچ سال تک کرسی صدارت پر برا جمان رہے،اس پر بھی عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا چاہئے تھا کہ کہیں وہ عدالت کی طے کردہ شرائط سے انحراف تو نہیں کر رہے، قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ جب مولوی تمیز الدین کیس زیر سماعت تھاتو چیف جسٹس باقاعدگی سے گورنر کو ملنے جایا کرتے تھے، اس کیس میں اختلافی نوٹ صرف جسٹس اے آر کارنیلیئس کا تھا۔عدالتی فیصلوں کا تاریک پہلو یہ ہے کہ آمرانہ حکومتوں کے خلاف فیصلے اس وقت دیئے گئے جب وہ اقتدار سے الگ ہو چکے تھے۔
ایسی عدلیہ جس کے سامنے لاکھوں مقدمات طویل عرصہ سے زیر التوا ہوں، انصاف کے حصول کے لئے15سے20سال صرف ہوں تو کیا ہر معاملہ کا نوٹس لینا اس کے لئے لازم ہے،یا انتظامیہ کی نااہلی انھیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے، قانون کی اصطلاح میں اس فعل کو judicial Activisim کہا جاتا ہے، اس سے مراد ایسا معاملہ جس کی نوعیت نہ فوجداری ہو نہ دیوانی بلکہ انسانی حقوق سے متعلق ہو،پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ عدالتی دائرہ کار کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہونا ہے اس کا تعین ہونا ہے ،عدالتیں ایسے بے شمار مسائل پر بات کرتی ہیں جن پر انکی معلومات واجبی ہوتی ہیں، اس بنا پر فیصلے ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، عدلیہ کو جوڈیشل ایکٹویزم کی تشریح کرنی چاہئے،بعض اوقات اس کا دروازہ سول حکومتیں خود کھولتی ہیں، لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ارض پاک میں سول حکومتیں کمزور رہی ہیں یا جان بوجھ کر انھیں کمزور کیا جاتا رہا ہے۔
عدلیہ کے ذمہ داران اپنا موقف رکھتے ہیں ، کہ ججوں کی تعداد کم ہے، پاکستان میں 10لاکھ آبادی کے لئے ایک جج جبکہ انڈیا میں یہ تعداد 18 ہے ترقی یافتہ ممالک میں اس بھی زیادہ ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ انصاف وہ ہے جو ہوتا ہوا بھی نظر آئے، زیادہ تر آئینی فیصلے جو معزز عدالتوں نے دیئے انھیں عوامی پذیرائی کم ہی حاصل رہی ہے، عمومی تاثر یہ ہے کہ ایسے فیصلے دبائو میں دیئے جاتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس سعید الزماںصدیقی مرحوم کا ماننا تھا کہ مارشل لاء کے عہد میں عدلیہ پر دبائو زیادہ ہوتا ہے۔
عام شہری کو انصاف تب مل سکتا ہے جب، عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اختیارات کو تقسیم کرنے والی لائن کو مدنظر رکھ کر اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور بہترین گورننس کی بدولت عوام کی خواہش کی تکمیل کریں، اگر قانون طاقت ور کے لئے مکڑی کا جالا ثابت ہو اور کمزور کے لئے پھانسی کا پھندا تو پھر قومی اداروں کی رینکنگ بڑھنے کے بجائے کم ہوتی رہے گی اور اس گلوبل ولیج میں ساری دنیا کی نگاہیں ہمارے اداروں پر بھی ہے۔موجودہ درجہ بندی بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں قانون مکڑی کا جالا ہی ہے ،عدلیہ اورانتظا میہ کی موجودگی میں بھی ہر بااثر فرد اسے توڑنے میں شرمندگی کے بجائے فخر محسوس کرتا ہے۔