اپنے حالیہ سرکاری دورہ ازبکستان کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ازبک صدر شوکت مرزا ایوف کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس میں سیاسی اور اقتصادی اعلانات کے ساتھ ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے ایک اعلان یہ بھی کیا کہ وہ ازبک حکومت کے ساتھ مل کر برِصغیر پاک و ہند میں مُغل سلطنت کی بنیاد رکھنے والے بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی زندگی پر ایک فلم بنائیں گے۔ وزیر اعظم نے مغل بادشاہ پر فلم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ظہیر الدین بابر کی نسل نے ہندوستان پر تین سو سال حکومت کی ہے اور اُس وقت اِس خطے کا شمار امیرترین خطوں میں ہوتا تھا اور اُس عہد میں ایک سُپر پاور کے طور پر جانا جاتا تھا۔اُن کا کہنا تھا کہ فلم کا مقصد پاکستانی اور ازبکی نسلوں کو تاریخ سے روشناس کرانا اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تاریخی ہم آہنگی کو پروان چڑھانا ہے۔
اِس خبر کو طالب ِ علم، معروف محقق، تاریخ داں اور مُغل تاریخ کے ماہر ڈاکٹر مرزا حسن بیگ کے علم میں لایا اور رابطہ کرکے اُن کی رائے جاننا چاہی ۔ اُنہوں نے کمالِ مہربانی اور شفقت کے ساتھ اپنی رائے خطِ برقیاتی کے ذریعے بھیجی۔جس میں انہوں نے بتایا کہ ’’بابر پر فلم کا بننا خوش آئند ہے۔ فلم کا فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تاریخی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے امام بُخاری، مرزا غالبؔ اور علامہ اقبالؔ، مرزا غالبؔپر بھی فلمیں بنانے کے ارادے کااظہار بھی کیا، جو اِن ممالک کے تعلقات میںمزید تقویت کا باعث ہوگا ۔ برِصغیر میں بابر کی حیثیت مُسلّمہ ہے۔اگر اس اعلان پر عمل ہوجائے تو تاریخ کے طالب علموں کے لئے فلم تحقیق کا ایک بہترین ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضرروری ہے کہ اس باب میں جدید تحقیق اور بابر کے نقشِ قدم پر سفر کے تجربات کے تحت حقیقت پسندی کو مدِنظر رکھا جانا چاہیے۔افسانوی قصے کہانیوں کو فلم سے دور رکھا جائے۔ ظہیر الدین بابر نہ صرف مُغل سلطنت کا بانی تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادیب، شاعر، تنقید نگار اور آج کے الفاظ کے مطابق منفرد فطرت نگار بھی تھا ،جو بابر کو ایک منفرد حیثیت دیتی ہیں۔ اُس نے برِصغیر کے حالات، یہاں پر بسنے والے انسانوں، جانوروں، پرندوں اور پھولوں اور پھلوں کی جو تفصیلات وقائع بابر میں درج کی ہیں وہ اِس سے پہلے کبھی نہیں لکھی گئیں۔
پاکستان کے علاقوں سے گذرتے ہوئے اس نے سُنبل کے پھولوں کو وادی سون میں دیکھا اور اُن سے لطف اُٹھاتے ہوئے جس طرح اِس کو بیان کیا ہے وہ اس کے مشاہدے کی گہرائی کا ثبوت ہیں اور اِس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اب اگر پاکستان بابر پر فلم بنا رہا ہے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ فلم بینوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اِس میں تاریخی طور پر حقیقت پسندی کا عنصر غالب رہنا چاہیے۔‘‘
بابر نامہ یا تُزکِ بابری، جس کا جدید اردو ترجمہ بنام ’’وقائع بابر‘‘ ڈاکٹر حسن بیگ نے، جن کا مختصر تعارف کالم کے آغاز میں پیش کرچکا ہوں، ۲۰۰۷ء میں نہایت محنت اور جانفشانی سے شائع کیا ہے۔ کتاب کا باطِنی حُسن تو اپنی جگہ لیکن کتاب کے ظاہری حُسن میں جس ذوق کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ترجمے کی ایک خاص بات تو یہ ہے کہ اس کی تالیف میں دنیا کی تقریبا سب ہی زبانوں کے تراجم کو سامنے رکھا گیا ہے۔دوسری یہ کہ اس سے پہلے شائع ہونے والے تراجم کے متن و حواشی کی تصحیح کے ساتھ ان کی شرح بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حسن بیگ بابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر ممکن جگہ اور مقام پر گئے جس کا ذکر وقائع بابر میں ملتا ہے۔ اس میں اُنھیں دوسرے ممالک کے داخلی حالات، زبان کے فرق اور سفر کی تکالیف کے سبب بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ لیکن اُن کے عز م اور ہمت نے مشکلات اور تکالیف کو اپنے مقصد کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ بابر نے موجودہ پاکستان کے شمال میں باجوڑ، جنوب مغرب میں سخی سرور اور مشرق میں سیالکوٹ تک کا سفر اختیار کیاتھا۔ بابر شناس مصنفین بابر کے اس حصے کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ مگر ڈاکٹر حسن بیگ نے ازبکستان، افغانستان، ہندوستان کے علاوہ اِن علاقوں کا سفر بھی کیا۔ وقائع بابر کے ترجمے کے آخر میں ڈاکٹر بیگ کے پانچ مضامین ’’بابر کی تلاش میں‘‘ بھی شامل ہیں جس میں انہوں نے ازبکستان، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے علاقوں کے سفر کی مُفصل روداد لکھی ہے۔ ازبکستان اور افغانستان کے مضامین اصلاََ انگریزی میں تھے جن کا اردو ترجمہ معروف اسکالر محمد اختر مسلمؔ نے کیا ہے۔ اردو کے اس ترجمے میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس کا رجحان اردو زبان میں شائع ہونے والی کُتب میں کم ہی دیکھنے میںآتا ہے۔ اردو قاری کے رواں مطالعے کے لیے نام اور جگہوں کے لیے رائج املااستعمال کیا گیا ہے۔ مشرقی ناموں کے عام طور پر کوئی نہ کوئی معنی ہوتے ہیں۔ ترکی نام روسی زمانے میں عام طور پر بگاڑ دیے گئے تھے۔ اس تبدیلی سے مشرقی کان اِن آوازوں کو قبول نہیں کرتے اور ان کے معنی بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس ترجمے میں کوشش رہی ہے کہ اصلی بامعنی نام لکھیں جائیں۔
ڈاکٹر حسن بیگ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بابری اخلاف کی حکومت جسے عام طور خاندانِ مغلیہ کہا جاتا ہے ،درست نہیں ہے۔ کیونکہ بابر تُرک تھا اور اپنے تُرک ہونے پر فخر بھی کرتا تھا۔ اس لیے اِس حکومت کو خاندانِ بابری کہنا زیادہ درست ہوگا۔مغلیہ حکومت کے ایک آثار کا ایک بڑا ورثہ اردو زبان بھی ہے۔ اگرچہ اردو اس سے پہلے بھی فوجی بازاروں میں بولی جاتی تھی لیکن مغلوں نے اس کی خوب پرورش کی اور پروان چڑھایا۔ لیکن افسوس کہ اِسی اردو زبان میں بابر نامے اور دوسری تواریخ کا فقدان رہا ہے۔اِس کمی کو وقائع بابر کے اس ترجمے نے پُر کردیا ہے۔
جس ذوق اور شوق کے ساتھ ڈاکٹر حسن بیگ نے وقائع بابر کو شائع کیا ہے اُمید ہے کہ وہ فارسی اور اردو کے ایک عظیم شاعر مغل زادے اسد اللہ خاں غالبؔ کے خطوط کو بھی اسی ذوق کے ساتھ شائع کریں گے کہ غالبؔ کے خطوط کو بھی تاریخ اور ادب میں منفرد حیثیت حاصل ہے ۔