آزاد کشمیر کے انتخابات میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا اور حسب توقع مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاے۔ ان انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ ن میں بڑی لے دے ہو رہی ہیں نتائج تسلیم نہ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن پارٹی سربراہ اس حوالے سے مکمل خاموش ہیں۔ مسلم لیگ ن اس وقت بیانیے کے تضاد کا شکار ہے۔ شہباز شریف مفاہمتی بیانیے کے علمبردار ہیں جبکہ مریم نواز جارحانہ رویے کی حامی۔ بیانیے کی اس رسہ کشی میں ووٹر اور پارٹی کے منتخب اراکین پریشان ہیں کہ کس طرف جائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر جارحانہ گروپ کی اجارہ داری ہے جبکہ پارٹی سربراہ کا اس پر اتنا کنٹرول نہیں جس کی وجہ سے ان کے بیانیہ کی تشہیر نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے پارٹی بھی تقسیم ہے کہ کون سا بیانیہ اپنائے۔ اسے کیا کہیے کہ نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر ایک ٹی وی شو پر پارٹی سربراہ شہباز شریف پر کشمیر الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے خاموشی پر تنقید کر رہے ہیں۔ پھر بھی دعوی کیا جاے کہ مسلم لیگ ن کے اندر بیانیے کی جنگ نہیں ہے تو حیف صد حیف ہے۔ اس پر شہباز شریف کی طرف سے مکمل خاموشی بھی کنفیوژن کو ہوا دے رہی ہے۔
اب آتے ہیں کشمیر انتخابات کی طرف اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جاے تو نتائج وہی آئے جو ہمیشہ سے آتے رہے ہیں یعنی وفاق پاکستان کی حکمران جماعت ہی آزاد کشمیر میں سرخروع ٹھہری۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے ووٹرز بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے جملہ مسائل کا حل اور تمام ترقیاتی کام وفاق سے ہی مشروط ہیں اس لیے ہمیشہ کی طرح ووٹرز نے اسی پارٹی کو ترجیح دی جو وفاق میں حکمران تھی۔ بڑے بڑے جلسے بھی بیلٹ بکس تک نہیں پہنچ سکے اور وہاں صرف ووٹر کے ضمیر اور ضرورت نے کام کیا۔ یہ واضع تھا کہ آزاد کشمیر کا ووٹر پاکستان کی کسی اپوزیشن پارٹی کو منتخب کر کے اپنے لیے مسائل پیدا نہیں کر سکتا تھا اور یہ بات اپوزیشن پر بھی واضع تھی پھر دھاندلی کا واویلا کیوں۔
البتہ پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کی قیادت میں بہتر نتائج دیے اور تمام تر حکومتی وسائل کے باوجود بھی آزاد کشمیر کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ ان انتخابات میں آصفہ بھٹو کے جوہر بھی کھل کر سامنے آے۔ مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہوتے ہوے 11 سیٹیں نکال لینا خوش آئند ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں بہتر نتائج دے گی۔
مسلم لیگ ن کے لیے المیہ یہ ہے کہ پنجاب کے تمام ضمنی انتخابات جیتنے کے باوجود آزاد کشمیر کی مہاجرین کی سیٹس پر بھی اس کی کارکردگی پاسنگ مارکس سے بھی کم تھی۔ مریم نواز تو آزاد کشمیر میں انتخابی مہم میں مصروف تھیں لیکن مہاجرین کی 12 نشستوں پر مسلم لیگ ن کی پاکستان کی قیادت نے کچھ بھی نہ کیا۔ نتیجتاً سب سیٹیں گنوا بیٹھی۔ دراصل مسلم لیگ ن میں آجکل بیانیے کی اجارہ داری کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف مفاہمتی بیانیے کے ساتھ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ہیں اور دوسری طرف جارحانہ انداز اپنائے مریم نواز۔ کشمیر الیکشن کی مبینہ دھاندلی پر شہباز شریف کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے اس حوالے سے ایک ٹی وی پروگرام میں کیا دلیل دی ہے کہ اگر شہباز شریف دھاندلی کے حوالے سے نہ بولے تو انہوں پارٹی کو منع بھی نہیں کیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کشمیر الیکشن دھاندلی پر پارٹی شہباز شریف کو ہی قائل نہ کر سکی تو عوام کو کیا کریں گے تو انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ آزاد کشمیر انتخابات میں اتنی بڑی دھاندلی پر شہباز شریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ پارٹی ردعمل نہ دے۔ انہوں نے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ ن میں لیڈران کی اکثریت ہے اگر پارٹی صدر آزاد کشمیر انتخابات میں دھاندلی پر نہ بولے تو کیا ہوا۔
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ تمام پالیسی بیانات صدر مسلم لیگ شہباز شریف کی بجاے نائب صدر مریم نواز دے رہی ہیں اور روز مرہ کی بریفنگ احسن اقبال یا شاہد خاقان عباسی۔ آخر مسلم لیگ ن کے اندر کیا کھینچا تانی چل رہی ہے. مسلم لیگ ن دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کی بات کر رہی اور پارٹی صدر منظر سے ہی غائب ہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر بیانیے کی جنگ چل رہی ہے۔ پارٹی صدر ایک طرف اور ایک موثر گروپ جسے مریم نواز کی تائید حاصل ہے دوسری طرف اور اس لڑائی میں عام ورکر تو کیا منتخب اور بااثر لیگی بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ کدھر جائیں۔ میرا مسلم لیگ ن سے دہائیوں کا ساتھ ہے اسی لیے اپنے دل کی بات کر لیتے ہیں اور اکثر مسلم لیگی بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ ایسے ہی کچھ لیڈران سے میری بات ہوئی ہے وہ کہتے ہیں پارٹی صدر اور دوسرے ٹولے میں پارٹی میں اپنا اپنا کلہ مضبوط کرنے کی جنگ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی صدر شہباز شریف منظر سے آئوٹ ہیں اور لگ رہا ہے کہ اپنے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور اس کے ووٹر کی ساری سیاست کبھی انٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہی۔ ان کادعوی تھا کہ کشمیر الیکشن بھی اسی جارحانہ پالیسی کا ثمر ہے اگر شہباز شریف کے بیانیے پر چلتے تو شاید یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف ہی تھا جس نے نواز شریف کو جیل سے نکال کر لندن پہنچایا۔ اگر اس وقت انکی پالیسی ٹھیک تھی تو آج کیوں رد کی جا رہی ہے۔ لیگیوں کا مولانا فضل الرحمان پر بھی غصہ ہے کہ ان کی جارحانہ اور ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی نے پی ڈی ایم کو غیر موثر کر دیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اس کا ذمہ دار مریم نواز کی جارحانہ پالیسی اور شاہد خاقان عباسی کے پیپلز پارٹی کے خلاف سخت موقف کو بھی قرار دے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کی اشیر باد کے بغیر یہ سب ممکن تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں لیکن مسلم لیگ کے سامنے ایک مستقبل ہے جسے مولانا تاریک کرنیکے درپے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن مولانا کی پالیسوں کا اپنا کر آئندہ عام انتخابات بھی مشکل بنا دے گی۔ میرے خیال میں مولانا کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں سب پالیسیوں کا منبع نواز شریف ہیں۔ اور نواز شریف کا موقف یہ ہے کہ زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد۔ بہر حال اس صورتحال تک پہنچنے میں بھی کئی عوامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کو عام انتخابات تک ایک ہی پالیسی اختیار کرناہو گی تا کہ ووٹر بھی کنفیوز نہ ہو سیاست میں آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیں چلتا۔
قارئین اپنی آراء کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل ، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔