اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی نے اپنے اغوا سے متعلق جو بیان دیا اس کی سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اور پولیس تفتیش سے ہم آہنگی ہی نہیں، افغان سفیر اور ان کی صاحبزادی واپس چلے گئے، اب تضاد کیسے دور کریں؟
وزیراعظم نے بات گزشتہ روز افغان صحافیوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ افغان صحافی نے سوال کیا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کی تفتیش کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس پر عمران خان نے واضح کیا کہ تفتیش میں جو شواہد ملے اسے افغان تفتیشی ٹیم کو دکھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی نے اپنے مبینہ اغوا اور تشدد کا ذکر کیا لیکن سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اور ٹیکسی ڈرائیورز کے مطابق وہ اسلام آباد سے راولپنڈی ایک شاپنگ سینٹر گئی اور پھر وہاں سے اسلام آباد آئی لیکن اس نے اپنے بیان میں راولپنڈی جانے کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔
سوالات کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغان سیاسی رہنماؤں کا پاکستان کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرانا افسوسناک ہے۔ طالبان کا پاکستان سے کوئی سروکار نہیں، نہ ہی ہم ان کے ترجمان ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان جتنی محنت کسی ملک نے نہیں کی، افغان خانہ جنگی سے ہمارا ملک براہ راست متاثر ہوگا۔ ہمارا ہمیشہ یہی مؤقف رہا کہ افغان مسئلے کا حل طاقت سے نہیں ہوگا، یقین رکھتےہیں کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم نے عسکری اداروں کے اثرورسوخ کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوج میری حکومت کے ہر اقدام کی حمایت کر رہی ہے۔ اگست کے بعد پاکستان نے بھارت سے تمام تعلقات منقطع کر لئے تھے۔ 5 اگست کو بھارت نے کشمیریوں کا حق چھینا۔