اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عمر قید کی سزا کی مدت کے تعین کا نوٹس لے لیا جس میں عدالت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ عمر قید پانے والے مجرم کو 25 سال جیل کاٹنا ہو گی یا اس کی ساری عمر جیل میں گزرے گی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نوٹس ہارون الرشید بنام اسٹیٹ مقدمہ کی سماعت کے دوران لیا۔
دورانِ سماعت وکیل نے بتایا کہ ہارون الرشید کو قتل کے 12 مختلف مقدمات میں 12 مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی۔ مجرم 1997 سے جیل میں ہے اور 22 سال سزا کاٹ چکا ہے۔ عدالت عمر قید کی 12 سزاؤں کو ایک ساتھ شمار کرنے کا حکم دے۔
وکیل کے مؤقف پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا یہ غلط فہمی نہیں۔ عمر قید کی سزا کی مدت 25 سال ہے اور بڑے عرصے سے ایسے کیس کا انتظار تھا جس میں عمر قید کی مدت کا فیصلہ کریں۔ جیل کی سزا میں دن رات شمار کیے جاتے ہیں اس طریقے سے مجرم 5 سال بعد باہر آ جاتا ہے تاہم بہت سی غلط فہمیوں کے درست کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ عمرقید کی مدت کے تعین کا معاملہ عوامی اہمیت کا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا اور ساتھ ہی عدالت نے اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور پراسیکیوٹرز جنرل کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔
عدالت نے رجسٹرار آفس کو معاملہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔