اسلام آباد : صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو دیے جانے والے نوٹسز واپس لیے جائیں۔
صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس جاری کرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنیچ نے کی۔جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جن صحافیوں کے خلاف تنقید پر نوٹس جاری ہوئے ہیں انہیں فوری واپس لیا جائے۔ اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ تنقید روک کر سپریم کورٹ یا میرا بھلا کررہے ہیں تو یہ غلط ہے،ایسا کر کے آپ ہمارا نقصان کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھ پر کھل کر تنقید کریں تبھی غلطیاں درست کر سکوں گا لیکن عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا۔ بار بار کہہ رہا ہوں کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے۔ ہم تو غلطیاں تسلیم کرنے کےلئے تیار ہیں، یہاں تو بس موقع دیکھا جاتا ہے۔ میں سب غلطیاں اپنے سر پر اُٹھاؤں، بالکل نہیں اُٹھاؤں گا، مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو مجھ پر اُنگلی اٹھائیں۔ اگر اُنگلی نہیں اٹھائی تو میری اصلاح نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد طور پر تشدد ہوا کیا ان کا پتہ چلا کہ کون لوگ تھے؟ کیا آپ ان کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟ اسد طور نے جواب دیا کہ جی بالکل میں ان کی شکلیں پہچان سکتا ہوں جو ایف آئی آر دی تھی اس میں کہا تھا کہ تشدد کرنے والوں نے اپنا تعارف کروایا تھا۔
سماعت کے دوران اسد طور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کردی ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کیا آپ نے جھوٹا الزام لگایا ہے؟ اگر آپ پر دباؤ ہے تو ہم آپ کو پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے۔اسد طور نے کہا کہ میں ایف آئی آر کو اون کررہا ہوں لیکن اس درخواست میں مجھے غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسد طور صاحب! آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں۔ کیا اسد طور کا کیس فعال ہے یا سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے؟
اسد طور نے کہا کہ سال 2021 میں دائر کی گئی پٹیشن میں مجھے ٹریپ کیا گیا تھا۔ تین سال پرانی درخواست سے خود کو الگ کر رہا ہوں جو حالیہ اعلامیہ ہے اس سے متفق ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پر دباؤ ہے تو کیس واپس نہیں لینے دینگے۔ اسد طور نے کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کو روسٹم پر بلا لیا۔
اسد طور نے کہا کہ سال 2021 میں جب درخواست دائر ہوئی تو سمجھا تھا کہ مطیع اللہ جان بھی ساتھ ہیں جس انداز میں کمرہ عدالت میں درخواست دی گئی وہ طریقہ کار درست نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا صحافیوں کے الزامات کی تصدیق ہوئی تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ زندہ قومیں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہیں۔ یہاں پر تو کہتے ہیں کہ مٹی پاؤ۔ پہلے والے سوموٹو میں تفصیلات لی جا رہی تھیں کہ کتنے کیسز ہیں۔ یہاں تو بغیر کیسز کے ہی تشدد کیا جاتا رہا ہے۔
سماعت کے دوران مطیع اللہ جان نے ارشد شریف قتل کیس کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھا دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف قتل کیس کو بھی دیکھ لیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تھمبنیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔