ان دنوں وطن عزیز میں سیاستدان آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں ویسے تو یہ لوگ قیام پاکستان کے وقت ہی سے لڑتے جھگڑتے آرہے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مختلف النوع ہتھکنڈے اختیار کرتے رہے ہیں مگر اب تو انہوں نے حد کر دی ہے کہ ان کی سیاست کاری میں برداشت کا فقدان شدید تر ہو چکا ہے لہذا یہ عوام کی خدمت کو بڑی حد تک بھول چکے ہیں۔ ماضی میں بھی یہ سیاستدان عوام کی خدمت اور ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے دعوے تو کرتے رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی یکسوئی سے تعمیر و ترقی کے عمل میں حصہ نہیں لیا بس ڈنگ ٹپاؤ منصوبہ بندی کی گئی لوگوں کو عارضی پروگراموں کے ذریعے اپنا ہمنوا بنانے کی حکمت عملی اختیار کی نتیجتاً آج ہم بحرانوں کی زد میں ہیں۔ سیاسی معاشی اور سماجی بحران ہر آنے والے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت ڈالر کی اڑان برق رفتاری سے بلند ہوتی جا رہی ہے جس سے اشیائے ضروریہ و غیر ضروریہ کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ ادھر پٹرولیم مصنوعات کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بھی مہنگی ہونے جارہی ہیں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی حالت کس قدر ابتر ہوگی۔ وہ تو پہلے بھی خوشحال نہیں غربت کی آکاس بیل نے انہیں بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔ بعض لوگ تو چوک چوراہوں میں کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگئے ہیں عام سڑکوں پر بھی ایسے لوگ دیکھے جا رہے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ پیشہ ور گد اگر نہیں۔ حکمران ہیں کہ انہیں اپنے متعلق سوچنے کے اور کچھ نہیں سوچنا وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے رگیدنے اور مٹانے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں مگر عوام کی بہتری کے لئے کوئی ترکیب بھی ان کے دماغ میں نہیں آرہی۔
ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر وہ لوگوں کو کوئی آسائش کوئی سہولت اور کوئی سکھ نہیں دے سکتے تھے تو حکمران کیوں بنے کیوں اقتدار میں آئے وہ اس کا جواب معقول نہیں دے پائیں گے کیونکہ یہاں کوئی بھی حکمران عوام کی خاطر اختیارات کے تخت پر نہیں بیٹھتا اس نے تو اپنی تجوریاں بھرنا ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام محروم منزل ہیں غربت و افلاس نے ان کے آنگنوں میں مستقلاً ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ انصاف انہیں نہیں مل رہا۔ سویلین ادارے انہیں مسلسل زخم لگا رہے ہیں انہیں انسان سمجھا ہی نہیں گیا ان کے ساتھ کبھی شہریوں جیسا سلوک نہیں کیا گیا غلاموں ایسا رویہ اپنایا گیا اور اب وہ ارباب اختیار سے یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا پاکستان اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا؟ اخیر ہو گئی ہے اخیر! ظلم و زیادتی کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں حقوق سلبی کے واقعات عام ہو گئے ہیں مگر سرکار کے ایوانوں سے ان کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی وہ اپنے خیالوں میں گم ہیں اقتدار کے نشے میں مست ہیں۔ اب اگر عوام احتجاج کے راستے پر چل نکلتے ہیں تو انہیں انتظامی ادارے سبق سکھانے دوڑ پڑیں گے۔ طرح طرح کی سخت ترین دفعات لگائیں گے ڈرائیں دھمکائیں گے جبکہ احتجاج ان کا آئینی حق ہے مگر کوئی نہیں یہ دیکھے گا۔
بہرحال حالات ٹھیک ہونے کے امکانات فی الحال نہیں اگر کہیں سے قرضہ نہیں ملتا اور ایل سیز کھولنے کی اجازت نہیں ملتی تو زندگی عام آدمی کی بھونچال کے جھٹکوں ایسی ہوگی یا یہ کہہ لیجیے کہ ہر کوئی مرمر کے جئے گا مگر حکمران تب بھی ایک نظر اٹھا کر نہیں دیکھیں گے کیونکہ ابھی تک پچھلے حکمرانوں کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور وہ جب اقتدار میں تھے تو انہیں مسائل کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے ایک تماشا لگا ہوا ہے اور لوگ بے بسی سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس سے آس امید باندھیں ایک عمران خان سے یہ امید باندھی تھی کہ وہ اقتدار میں آگئے تو ان کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے مگر وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ انہوں نے لوگوں کے جذبات سے خوب کھیلا۔ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا آئی ایم ایف کی ہر شرط پر من و عن عمل کیا۔ اب جب انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا ہے تو انہیں اس کا سخت رنج ہوا ہے۔ انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ انہیں اقتدار سے محروم امریکی اسٹیبلشمنٹ اور یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر کیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر وہ اقتدار میں رہتے بھی تو کیا انگوروں اور سیبوں کے باغات ملک کے چپے چپے پر اگا لینے تھے۔ انصاف کے لیے ہر شاہراہ پر سستی عدالتیں قائم کر دینا تھیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا اگر ان کی یہ بات مان بھی لی جائے تو وہ اقتدار چھوڑ کر گھر کیوں نہیں چلے گئے مگر وہ مبینہ طور سے اپنی اہلیہ کے مشوروں پر عمل کرتے رہے۔ پھر چند قریب ترین اور عزیز ترین مشیروں کی مشاورت سے مستفید ہوتے رہے جبکہ قومی و صوبائی اسمبلیاں بھی ان کے مشورے سے ہی توڑی گئیں اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج دونوں اسمبلیاں محفوظ ہوتیں ان کے پروگراموں کو آ گے بڑھایاجاتا پھر انہیں گرفتار ہونے کے خوف میں مبتلا نہ ہونا پڑتا۔ یہ لوگ جوان کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں کب تک وہاں کیمپ لگائے رکھیں گے انہیں آخر کار تھک جانا ہے پھر پنجاب کے لوگ زبادہ دیر تک حالت اضطراب میں نہیں رہ سکتے۔ ان کے مزاج میں اب بہت تبدیلی آچکی ہے۔ لہٰذا دیکھا جا سکتا ہے کہ اس وقت لوگوں کی وہ تعداد باہرنہیں آئی جس کی توقع کی جا رہی تھی اس کا علم عمران خان کو نہیں ہوگا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح ان کے جلسوں میں بچے تک موجود ہوتے ہیں اس طرح مظاہروں اور دھرنوں میں بھی لوگ جوق در جوق آئیں گے مگر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا لہٰذا چودھری پرویز الٰہی کا کہنا درست ہے کہ اگر پنجاب اور کے پی کے اسمبلی نہ توڑی جاتی تو انہیں اب کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانا پڑتی مگر بات ان کے مشیروں جن میں ایک بڑا نام فواد چودھری کا ہے نے خان کو اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دیا جو کہ غلط تھااگر ہم ایک برس تک اقتدار میں رہتے تو کئی عوامی فلاحی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے اور عوام ان کا بر ملا اعتراف کرتے مگر ہماری کسی نے ایک نہیں سنی۔
بہر کیف یہ ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان ایک جذباتی سیاسی رہنما ہیں انہیں کب کیا کرنا ہے اس حوالے سے وہ دور اندیشی سے کام نہیں لیتے۔ اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں یعنی وہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اپنے کارکنوں کو ساتھ لے کر چلیں مگر وہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں جو ’سٹیٹس کو‘ کے حامی ہیں اور کسی وقت بھی انہیں دھوکا دے سکتے ہیں یا کسی الجھن میں ڈال سکتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ حکمران طبقات نے عوام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں وہ اسی طرح سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا کیونکہ وہ ارتقائی عمل کو نہیں روک سکتے جو آ گے بڑھتا ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
جنہیں تم بے حقیقت جانتے ہو گر وہ اٹھ بیٹھے
بدل ڈالیں گے رنگِ بزمِ دوراں دیکھ لو گے تم