سیاسی گھڑمس نے سانپ سیڑھی والا کھیل شروع کررکھا ہے۔ سوشل میڈیا، چیختی چلاتی جوڑتوڑ کی شہ سرخیاں اس تواتر سے دماغ ماؤف کر دینے کا سماں پیدا کرتی ہیں، کہ طبیعت پر اکتاہٹ طاری ہونے لگتی ہے۔ معیشت کی رفوگری کے لیے بھی آئے دن نئے نسخے آزمائے جانے کی خبر گرم رہتی ہے۔اب یہ کہ ’معیشت بحالی کے لیے 4000 ارب ٹیکس لگانے ناگزیر ہیں۔‘ تو لگائیں ٹیکس اور اوپر کی سطح سے بالائی اتاریں۔ عوام کو تو پانی ملی لسی والی معیشت پر ٹرخایا جا رہا ہے۔ ان شادیوں پر جہاں کروڑوں کا خرچ ہے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کے باسیوں پر طرز زندگی کی مناسبت سے ٹیکس لگیں۔ بڑے شاپنگ مالز پر جہاں شاپنگ پر روانہ لاکھوں اڑائے جا رہے ہوتے ہیں۔ بجائے عوام الناس کے لیے ویگن، بس تک کا سفرممنوعات میں ہو جائے۔ پیدل چلیں یا پیڈل چلائیں سائیکل کے۔ بچے اسکولوں سے اٹھا لیں؟ لالٹین جلائیں، کوئلے لکڑی جلائیں بجلی گیس کی جگہ۔ یوں تو مل مل کر کڑھنے جلنے سے بھی تپش پیدا ہوتی ہی ہوگی، سو خون جلائیے اپنا! اب تو ادویہ بھی پہنچ سے باہر ہیں۔ سو عوام کو صبر کے نتیجے میں جنت مکانی کرنے کے لیے حکومت سبھی اسباب فراواں کررہی ہے۔ قوم پیسے پیسے کو ترس رہی ہے اور پی آئی اے انتظامیہ کی خوش باشی دیکھیے۔ طیاروں کی کلر اسکیم (رنگ و روغن) اور دم کا ڈیزائن تبدیل کرنے کی سفارش کی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیڑھی دم رنگ تبدیل کرنے سے زیادہ سیدھی کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم معاشی بحران سے ہلکان ہے اور یہ رنگ روغن کے اللوں تللوں کے چکر میں ہیں! پی آئی اے سفید ہاتھی ہے، اسے ایسے ہی رہنے دیجیے!
ہماری کس مپرسی دیکھ کر امریکا نے ہمیں ازسرنو پارٹنر شپ کے لیے پچکارا ہے کہ ’ہم پاکستان کو بہتر معاشی پوزیشن پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بھرپور معاونت کریں گے!‘ پہلے فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم آج اس حال کو پہنچے بیٹھے ہیں۔ قومی خودمختاری بیچ کر جو ڈالر کمائے تھے، اسی کا بھگتان چکا رہے ہیں۔ اب نئی معاونت کے عوض کیا بیچیں گے مزید؟ عوام سیاسی ہنگاموں سے نکل کر دیکھیں کہ ملک کو کن دوستیوں، معاہدوں میں مبتلا کیا جا رہا ہے؟ اصل ابتلاء تو عوام بھگتتے ہیں۔ بڑے، ڈالر اور مراعات سمیٹتے ہیں، جیسا اتنے سال ہوتا رہا ہے۔ کھوکھلے پاکستان کی سڑکوں پر دوڑتی چمکتی دمکتی گاڑیوں کی ریل پیل اور پلازے ملاحظہ ہوں۔ سرکاری زمینوں پر شاندار بڑھتی پھیلتی ہاؤسنگ سوسائٹیاں دیکھیے تو ڈالروں کی کھپت کے مقام دیکھے جاسکتے ہیں! عوام الناس کے لیے تو مکانوں کے کرائے ایسے ہوش ربا بنا دیے گئے کہ خیمہ بستیوں کی ضرورت نہ کہیں بڑے شہروں کو پیش آنے لگے۔
یورپ ایک مرتبہ پھر اپنے بدمعاش نسل پرست (ڈنمارک سویڈن شہریت کے حامل) سیاست دان راسموسس پلاڈن کی بدباطنی پر مسلم دنیا کے آگے جوابدہ ہے۔ سویڈن میں اس نے ایک مرتبہ پھر قرآن جلانے کی گستاخانہ جسارت کی ہے۔ 2019ء میں برلن میں اسی کوشش پر اس کا جرمنی میں داخلہ بند کیا گیا۔ 2020ء میں ڈنمارک میں سوشل میڈیا پر مسلم مخالف وڈیوز پوسٹ کرنے پر اسے نسل پرستی کا مجرم قرار دیا گیا۔ 2020ء میں ہی اس نے خنزیر میں (نعوذباللہ) قرآن لپیٹ کر اسے آگ لگائی۔ یہ عمل کر گزرنے کے بعد سویڈن میں دو سال کے لیے اس کا داخلہ بند کردیا گیا۔ یہ عیاری ہے کہ پہلے کھلی آنکھوں دیکھتے اس سراپا خبث انسان کو جو وہ چاہے کر گزرنے دیا جاتا ہے۔ بعدازاں ردعمل سے بچنے کے لیے اس پر پابندی لگا دی یا برا بھلا کہہ دیا۔ اور پھر چل سو چل۔ اس مرتبہ بھی پولیس کے تحفظ میں اس نے کتاب مقدس کو عین ترک سفارت خانے کے سامنے جلایا۔ بعدازاں سویڈن کے وزیر خارجہ
اور وزیراعظم نے بھی مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اسے اسلاموفوبیک، اشتعال انگیز اور نہایت افسوس ناک کہا۔ نیز یہ بھی کہ سویڈن میں آزادیئ اظہار اگرچہ بہت اہم ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سویڈش حکومت یا ان اظہاریوں کے حق میں ہیں۔ یعنی جیسے یہ جملہ لکھ کر ’مدیر کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں‘ اخبار، رسالہ بری الذمہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اتنے ہولناک جرم کو وزیراعظم نے ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اُڑا دیا۔ اس پر سبھی اہم مسلم ممالک نے مذمتی بیان جاری کیے ہیں۔ (اپنے عوام کے ڈر سے!) پاکستان نے بھی اسے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی احساسات پر حملہ قرار دیا ہے۔
دنیا بھر میں 20 سال کچھ اصطلاحات کی جگالی کی گئی اور بالخصوص مسلمانوں کو دیوار سے لگایا گیا۔ ڈائیلاگ، برداشت، بقائے باہمی، رواداری، پلورلزم پڑھائے، رٹے لگوائے گئے۔ ہمیں نفرت انگیزی، دہشت گردی، انتہاپسندی کا مجرم قرار دیا گیا ہے! مگر اب بس کر دو بس بہت ہوچکی۔ ذرا اسرائیل اور بھارت کی نفرت انگیزی، نسل پرستی، انتہاپسندی، جارحانہ پرتشدد قوانین اور مسلم آبادی پر یلغار ملاحظہ ہو۔ بیس سال بعد سابق برطانوی سیکریٹری خارجہ کا اعتراف ہے کہ وہ گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی میں براہ راست مودی کے ملوث ہونے کی رپورٹ کرچکے تھے۔ بیس سال مغرب نے اس اژدھے کو دودھ پلاکر پالا ہے! راسموسس پلاڈن کا اجڈ، گنوار، نفرت انگیز رویے کا تسلسل دیکھیے۔ انہی 20 سالوں میں بدترین شرمناک اسلاموفوبک اقعات پورے مغرب میں سامنے آتے رہے۔ جرمنی میں مسلم قبرستانوں میں قبروں کی بے حرمتی، کتبوں پر نازی نسل پرستی کی علامت ’سواستیکا‘ ثبت کیا جانا۔ انسانی حقوق کو روندنے میں (مسلمانوں کے مقدسات) توہین رسالت اور توہین قرآن جیسے جرائم ہی کیا کم ہیں۔ ان کے ہاں نہ مذہب ہے نہ مذہبی شعایئر۔ رشتے ناطے، والدین، اساتذہ تک تو محترم نہیں۔ نبوت کا کیا تذکرہ‘ جب آنکھوں سامنے کے رشتے تقدس کھو بیٹھے……!!
مسلمانوں کو دنیا کے ان جھوٹے بدباطن، بدتہذیب لوگوں کے سامنے دبنے جھکنے گھگھیانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک ننھے سے مسلمان ملک (افغانستان) کے ہاتھوں منہ کی کھاکر انہیں اب بھی قرار نہیں آیا؟ راسموسس پلاڈن پر مسعود کمالی جو (معروف سوشیالوجسٹ) سویڈن میں سابقہ تفتیش کارِ خصوصی رہ چکا ہے، نے کہا: اس کا یہ عمل پورے یورپ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف ایک نسل پرستانہ اور سیاسی پیغام ہے کہ وہ جو جی میں آئیں کہہ گزریں، کر گزریں۔ ان جیسوں کو پوری حمایت حاصل ہوگی۔ دوسری طرف آزادیئ اظہار اور حقوق انسانی کے پرچارکوں کو افغانستان کے حوالے سے دیوانگی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ طالبان حکومت دنیا بھر میں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہی۔ آزادی اظہار ہی کرتی ہے جس پر دنیا تڑپ اٹھتی ہے! کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق، ہی کا معاملہ ہے۔ انسانی حقوق میں سے اولین حق اپنے عقائد اور نظریات، مقدسات پر عملدرآمد کی آزادی اور ان پر قائم رہنا ہے۔
یو این کا وفد اس مرتبہ دو مسلم خواتین اور ایک مسلمان مرد پر مشتمل تھا۔ اگرچہ بوتل نئی اور آب زمزم کا لیبل لیے ہوئے تھی،مگر مشروب وہی پرانا تھا! طالبان سے خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے اپنی شدید تشویش اور تحفظات کا اقوام متحدائی اظہار کیا گیا۔ کیا لطیفہ ہے کہ دنیا بھر کا سارا غم افغانستان کی وسائل سہولیات بنیادی ضروریات سے محروم آبادی، نوجوان بوڑھے بچے چھوڑکر، عورت کو پارکوں، یونیورسٹیوں میں مخلوط ہوئے پھرنے پر مرکوز ومحدود ہے! …… خلل ہے دماغ کا! انہیں رنج ہے کہ افغان عورتیں جب یو این خواتین سے ملوانے بھی لائی گئیں تو محرم مرد ہمراہ تھے! کتنا بڑا ظلم ہے کہ عورت کو یوں حفاظتی حصاروں میں رکھا جائے! مغربی عورت یا سرپھری سر چڑھی سیکولر مسلمان عورت، جس کا کوئی والی وارث، سردھرا، پشت پناہ نہ ہو، وہ اس وفاشعار، باوقار، ذی احترام مسلم عورت کی شان کیا جانیں! ان کا کہنا ہے (سرپھری کابلی عورتوں کا) کہ افغانستان میں خواتین میں ڈپریشن اور خودکشی بڑھ گئی ہے۔یہ مٹھی بھر چنڈال چوکڑی کے مسائل ہیں۔ اصلاً افغان عورت تو وہ ہے جس نے 20 سال صرف فاقہ کشی اور جنگ زدہ محصور زندگی ہی نہیں کاٹی، شوہروں، باپوں، اولادوں کی شہادتوں کا تسلسل صبر واستقامت سے جھیلا ہے۔ ڈپریشن اور خودکشی، عیش کوش بے ہدف زندگی کے نفسیاتی الجھاؤ ہیں۔ ورنہ افغان عورت کی مثال وہ شیر دل عورت ہے جو ڈرون حملے میں شہید ہونے والے شوہر کے جسم کے بکھرے ٹکڑے صبر وضبط کے ساتھ ایک بالٹی میں اپنے کمسن بیٹے کے ساتھ اکٹھے کر رہی تھی۔ زیر لب قرآن اور دعائیں تھیں، جس مثال نے ایک گوری صحافی کو دنگ کردیا اور اس نے یہ واقعہ ثبت کیا! اسے نہ ڈپریشن ہوا نہ اس نے خودکشی کی! ایسے مرد وزن نے مغربی فوجوں کو تابوتوں اور نفسیاتی مریضوں کے لشکروں میں بدل دیا! سو دنیا اپنی خیر منائے۔
ادھر پاکستان اپنی لڑکیوں، عورتوں کی فکر کرے۔ لاہور ڈی ایچ اے کے امریکن انٹرنیشنل نامی (مخلوط، مہنگا ترین) اسکول میں جو منشیات میں ملوث لڑکیوں کی ایک لڑکی پر تشدد کی وڈیو سامنے آئی ہے، وہ شتر بے مہار آزادی، نئی اعلیٰ تعلیم کے زہریلے پھل چکھانے کو کافی ہے۔ یہ نجی اسکولوں میں آزادی، اسلام بیزاری اور نفس پرستی کے ہولناک ماحول کا ایک عکس ہے۔ خبر لیجیے اپنے گھروں کی، افغان عورت کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کس میں ہے! مسلم عورت کی تباہی کے عالمی ایجنڈے کے حصہ دار مت بنیے۔