یہ 1946ء کی ایک شام کا ذکر ہے جب خطابت کے بے تاج بادشاہ عطاء اللہ شاہ بخاری دہلی کی جامع مسجد کے قریب انسانوں کے سمندر سے مخاطب تھے۔ انہوں نے گونج دار آواز میں کہا مجھے پاکستان بن جانے کا اسی قدر یقین ہے جتنا کہ اس بات پر کہ صبح سورج مشرق سے طلوع ہونے والا ہے لیکن یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہوگا جو اِس وقت کے دس کروڑ مسلمانان ہند کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے آپ بڑے خلوص سے کوشاں ہیں۔ ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بات جھگڑے کی نہیں، سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ اگر آج مجھے کوئی اس بات کا یقین دلا دے کہ کل کو ہندوستان کے کسی قصبے کی کسی گلی میں شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ ہونے والا ہے تو میں آج ہی اپنا سب کچھ چھوڑ کر آپ کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے کلہاڑی کو دونوں ہاتھوں پر اٹھا کر مشرقی اور مغربی پاکستان کے نقشے سمجھاتے ہوئے کہا اِدھر مغربی پاکستان ہوگا، اُدھر مشرقی پاکستان، درمیان میں چالیس کروڑ ہندو کی حکومت ہوگی۔ لالوں کی حکومت، لالے دولت والے، لالے ہاتھیوں والے۔ ہندو اپنی عیاری اور مکاری سے پاکستان کو ہمیشہ تنگ کرے گا، اسے کمزور بنانے کی ہرکوشش ہوگی۔ پاکستان کے دریائوں کے پانی روک دیئے جائیں گے۔ پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پاکستان کی حالت یہ ہوگی کہ بوقت ضرورت مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی اور مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کی مدد کرنے سے قاصر ہوں گے۔ پاکستان پر چند خاندانوں کی حکومت ہوگی اور یہ خاندان زمینداروں، صنعت کاروں کے خاندان ہوں گے جو اپنی من مانی کارروائیوں سے عوام الناس کو پریشان کرکے دکھ دیں گے۔ غریب کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، امیر روزبروز امیرتر ہو جائیں گے اور غریب غریب تر۔ اگر ہندوئوں اور مسلمانوں نے فرنگی سے اپنا انصاف مانگا ہے تو وہ ان دونوں کے درمیان کوئی نہ کوئی ایسا فساد ضرور پیدا کرجائے گا کہ یہ دونوں قیامت تک چین سے نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آج تلواروں اور لاٹھیوں سے لڑتے ہیں تو آنے والے کل کو توپ اور بندوق سے لڑیں گے۔ اس سے انسانیت کو جو نقصان ہوگا، عورت کی جو توہین ہوگی اور شرافت جس بری طرح برصغیر میں زخمی ہوگی، اس کا حساب لگانا ممکن نہیں۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ 76برس پہلے جو باتیں پاکستان میں آئندہ رونما ہونے والے سیاسی حالات کے بارے میں کی گئیں وہ سچ ثابت ہوئیں۔ کیا یہ لوگ مستقبل کو دیکھنے والے سیاست دان تھے یا کوئی نجومی؟ اُس وقت تنقید کرنے والے دراصل اُن لوگوں کو جان گئے تھے جنہوں نے مستقبل میں پاکستان پر حکمرانی کرنا تھی۔ قائداعظمؒ کے زندہ رہنے کے باعث ہی پاکستان کا قیام ممکن ہوا کیونکہ اگر پاکستان بننے سے پہلے قائداعظمؒ نہ رہتے تو پاکستان کا ظہور بھی شاید ممکن نہ ہوتا۔ اس بات کا علم خود قائداعظمؒ کو بھی تھا۔ اسی لیے جب مائونٹ بیٹن نے خان آف قلات کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کا تین سالہ منصوبہ مان لیں تو اس میں پاکستان کا بے پناہ فائدہ ہوگا مگر قائداعظمؒ نے اس تجویز کو رد کردیا کیونکہ وہ اپنی صحت اور انگریزوں کی نیت کے بارے میں خوب جانتے تھے اور وہی ہوا۔ پاکستان بنتے ہی قائداعظمؒ چل بسے اور وہ دعوے بھی چل بسے جن کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کو پاکستان بننے پر پورا یقین تھا۔ اس کی وجہ قائداعظمؒ کی شخصیت تھی اور یہ صحیح تھا۔ عطا اللہ شاہ بخاری کو پاکستان بننے کے بعد یہ بھی پورا یقین تھا کہ وہاں ان باتوں پر عمل درآمد نہیں ہوگا جن کے لیے پاکستان بنایا گیا ہوگا۔ یہ بھی صحیح تھا۔ اس کی وجہ وہ خود یہاں چند خاندانوں کی حکمرانی بتاتے ہیں۔ کیا یہ بھی صحیح نہیں ہے؟ ذرا تصور کیجیے! پاکستان بننے سے پہلے ایک شخص ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اعلان کررہا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کردے گا اور تقریباً 7دہائیوں بعد ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ ہندوستان نے ہماری طرف آنے والے دریائوں پر بند تعمیر کرلیے ہیں اور ہم اس ناانصافی کے لیے ورلڈ بینک یعنی فرنگی کی مداخلت کی بھیک مانگتے رہے ہیں۔ پاکستانیوں کا پانی بند کرنے والے اصل مجرم ہندوستانی ہیں نہ فرنگی بلکہ دریائوں کے پانی پر ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کرنے والے ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان اصل مجرم ہیں یا وہ حکمران ہیں جنہوں نے گزشتہ 76برس میں پروٹوکول حاصل کرنے اور اپنی گاڑیوں پر جھنڈا لہرانے کے علاوہ دریائوں کے پانی کی بندش کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ کیا کوئی عدالت ان لوگوں سے پوچھ گچھ کرے گی جو پاکستان پر حکمرانی کرنے والے اپنے یا اپنے حکمران آبائو اجداد کے احسانات جتلاتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے مستقبل میں پاکستان میں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کیا کیا؟ آمریت ہو یا جمہوریت، ہردور میں دانہ چگنے والے ان مخصوص خاندانوں کی جگہ جب بھی کبھی عام لوگوں کی حکمرانی ہوگی تب عطاء اللہ شاہ بخاری کی یہ باتیں غلط ثابت ہو جائیں گی۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب آمر، امیر اور جاگیردار کے گریبان ہوں گے اور غریب کا ہاتھ۔ تب دریائوں میں پانی ہوگا اور کھیتوں میں ہریالی کیونکہ یہ فارمولا دنیا میں آزمایا جاچکا ہے۔