واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے جاری ایک اہم بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان امن معاہدہ، امریکا سے کیے اپنے وعدوں کی تکمیل، القاعدہ گروپس سے تعلقات اور پرتشدد کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہے، تاہم ہم ابھی بھی معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی نئی انتظامیہ کیلئے یہ چیز بہت دشوار ہے کہ وہ اپنے امن مذاکرات کے معاملات کو آگے بڑھائے کیونکہ طالبان 2020ء کے معاہدے کے تحت اپنا کوئی بھی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے۔ نہ تو افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں ختم ہوئیں اور نہ ہی دیگر شدت پسند گروپوں کیساتھ روابط کا خاتمہ کیا گیا۔
انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق گزشتہ سال مختلف دہشتگرد کارروائیوں میں تقریباً 2900 عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ پینٹاگون کے ترجمان جون کربی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جب تک طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہمارے لئے معاہدوں کو جاری رکھنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود ہم اب بھی افغانستان میں قیام امن کیلئے ان کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح سے افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کی واپسی ممکن بنا سکیں۔ ان کا ماننا تھا کہ امریکا کو جنگی معاملات میں الجھنے کی بجائے اپنی معیشت پر توجہ دینی چاہیے۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انہوں نے افغان ٹروپس کی واپسی کیلئے کوششیں تیز کر دی تھیں لیکن طالبان کیساتھ امن معاہدے میں تعطل کی وجہ سے وہ اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور اقتدار نئے صدر جوبائیڈن وک منتقل ہو گیا جن کی اپنی ترجیحات ہیں تاہم انہوں نے افغان امن عمل کیلئے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کو تبدیل نہیں کیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان کیساتھ امن معاہدہ ہونے سے خطے میں استحکام کا آغاز ہو جائے گا۔