دوحہ: امارت اسلامی افغانستان (طالبان ) اور امریکہ کے مابین ہونے والے امن معاہدے میں 4 باتوں پر اتفاق کیا گیا ہے۔
1: امن معاہدہ اس بات کا ضامن ہے کہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی سکیورٹی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ (کسی بھی گروپ کی جانب سے افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی).
2: معاہدہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ایک خاص وقت کے اندر یقینی بنایا جائے گا۔
3: عالمی گواہوں کی موجودگی میں مکمل انخلا کی ضمانت دیے جانے کے بعد یہ یقینی بنایا جائے گا کہ افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ امارت اسلامی کو اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا اور انہیں طالبان کے نام سے پہچانا جاتا ہے اس لیے وہ یقینی بنائیں گے کہ 10 مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز کریں گے۔
4: امن معاہدے میں مستقل سیز فائر بھی شامل ہے، انٹرا افغان مذاکرات کے شراکت دار اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مستقل سیز فائر پر بات چیت کریں اور اس پر مشترکہ طور پر عملدرآمد کریں اور افغانستان کے مستقبل کا سیاسی روڈ میپ تیار کریں ۔
دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ معاہدے میں بیان کیے گئے چاروں نکات ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں جن پر ایک مخصوص عرصے میں مشترکہ شرائط پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، پہلی دو شرائط پر عملدرآمد سے آخری دو شرائط کا راستہ نکلے گا۔
امریکہ پر عزم ہے کہ افغانستان سے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی ساری فوج کو نکالے گا، امریکہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ افغانستان سے تمام غیر سفارتی سویلینز، پرائیویٹ سکیورٹی کنٹریکٹرز ، ٹرینرز، مشیر اور سپورٹنگ سروس کے لوگوں کو معاہدے کے اعلان کے بعد 14 ماہ میں نکالے گا، اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے گا۔
A: امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے
1) وہ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں تعداد کم کرکے 8 ہزار 600 کردیں گے اور اتحادیوں اور نیٹو فورسز کی تعداد میں بھی مرحلہ وار کمی کریں گے
2) امریکہ ، اس کے اتحادی اور نیٹو 5 فوجی چھاﺅنیاں مکمل طور پر خالی کردیں گے.
B: معاہدے کے دوسرے حصے میں امارتِ اسلامی افغانستان جنہیں طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے، امریکہ ، اتحادی افواج اور نیٹو فورسز مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے۔۔۔
1) امریکہ ، اس کے اتحادی اور نیٹو فورسز باقی کے ساڑھے 9 ماہ کے دوران اپنی ساری فوج افغانستان سے نکال لیں گے۔
2)امریکہ ، اس کے اتحادی اور نیٹو فورسز باقی بچ جانے والی فوجی چھاﺅنیوں سے اپنے تمام فوجی نکال لیں گے۔
C: امریکہ باہمی اعتماد کی فضاءقائم کرنے کیلئے جنگجو اور سیاسی قیدیوں کو تمام فریقوں کی رضامندی سے فوری طور پر رہاکروائے گا، 10 مارچ 2020 کو انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے دن طالبان کے 5 ہزار سے زائد اور دوسری جانب کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا، فریقین نے تین ماہ کی مدت میں تمام قیدیوں کی رہائی پر رضا مندی ظاہر کی ہے، رہائی پانے والے طالبان بھی اس معاہدے کے پابند ہوں گے یعنی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
D: جب انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوگا تو امریکہ طالبان رہنماﺅں پر عائد پابندیوں اور ان کے رہنماﺅں کے سروں پر رکھی گئی ایسی انعامی رقوم جنہیں اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا کا از سر نو جائزہ لے گا اور 27 اگست 2020 تک یقینی بنائے گا کہ پابندیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔
E: انٹرا افغان مذاکرات شروع ہونے پر امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے سفارتی روابط کرے گا اور 29 مئی 2020 تک یہ یقینی بنائے گا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماﺅں پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
F:امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی علاقائی سلامتی اور سیاسی آزادی کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اور اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا اور نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرے گا۔
امن معاہدہ حصہ دوم
امن معاہدے کے اعلان کے ساتھ امارتِ اسلامی افغانستان جنہیں اقوام متحدہ نے بحیثیت ملک تسلیم نہیں کیا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے القاعدہ اور دیگر گروپوں کو روکنے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے۔۔۔
1: طالبان اپنے کسی رکن ، کسی دوسرے شخص یا گروپ کو جس میں القاعدہ بھی شامل ہے افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گا۔
2: طالبان ان تمام گروپوں کو جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بننا چاہیں انہیں واضح پیغام دیں گے کہ ان کیلئے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے، طالبان اپنے ارکان کو اس بات کی ہدایت کریں گے کہ وہ کسی بھی ایسے گروپ یا شخص کے ساتھ تعاون نہ کریں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بنیں۔
3:طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے خطرہ بننے والے تمام گروپوں یا شخصیات کو نہ تو ٹریننگ دیں گے، نہ ہی انہیں چندہ جمع کرنے دیں گے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو بھرتی کریں گے اور نہ ہی معاہدے میں طے پائی شرائط کے مطابق ان کی میزبانی کریں گے۔
4: طالبان ان لوگوں جو افغانستان میں سیاسی پناہ چاہتے ہیں کو عالمی قوانینِ مہاجرت کے تحت دیکھیں گے اور ایسے لوگوں کو پناہ نہیں دیں گے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے خطرہ بنیں۔
5: طالبان ان لوگوں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بنیں کو پاسپورٹ، ویزہ، سفری اجازت نامے یا دیگر قانونی کاغذات فراہم نہیں کریں گے۔
امن معاہدہ حصہ سوئم
1: امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کرے گا کہ وہ اس معاہدے کی تائید کرے۔
2: امریکہ اور طالبان انٹرا افغان مذاکرات کے بعد بننے والی اسلامی حکومت کے درمیان بہتر تعلقات قائم کریں گے ۔
3: انٹرا افغان مذاکرات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے ساتھ مل کر امریکہ افغانستان کی تعمیر نو میںمالی تعاون کرے گا اور اس دوران افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
یہ معاہدہ 29 فروری 2020 ، بمطابق 5 رجب المرجب 1441 ہجری کو دوحہ قطر میں سائن کیا گیا ہے، اس کو پشتو، دری اور انگلش زبان میں لکھا گیا ہے اور تمام زبانوں میں لکھی گئی تحریریں ایک جیسی مستند ہیں۔