اسلام آباد: انتظامیہ کی جانب سے تمام گرفتار افراد کو چھوڑ دینے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں کا کیس نمٹا دیا.
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ایس ایس پی صاحب آپکا عدالت کے ساتھ تعاون کا شکریہ اب آئندہ بھی ایسے ہی ہونا چاہیے۔
بلوچ مظاہرین کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے عدالت میں کہا کہ انتظامیہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے الفاظ کا پاس رکھتے ہوئے تمام گرفتار بلوچ رہا کر دیے،موجودہ حالات میں ملک میں امید کی کرن عدالتیں ہی ہیں۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالتیں امید کی کرن ہیں؟ نہیں، پتا نہیں۔
وکیل عطا اللہ کنڈی نے دوران سماعت عدالت میں کہا کہ پولیس نے مظاہرین کے ساتھ جو غیر قانونی اقدام کیے وہ عدالت کو دیکھنے چاہیے۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ عدالت نہیں چاہتی کہ کوئی ایسی صورتحال بنے کہ ہماری وجہ سے ان کے خلاف جارحیت شروع ہو جائے،دعا اور امید کریں کہ سب بہتر ہو۔
وکیل عطا اللہ کنڈی نے مزی کہا کہ انتظامیہ بلوچ خواتین کو 24 گھنٹے گرفتار رکھنے پر معافی مانگے،انتظامیہ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ بلوچ خواتین کو گرفتار کیوں کیا گیا۔پولیس کو تنبیہ کی جائے کہ آئندہ ایسی کسی ڈائریکشن پر ایسا غیر قانونی اقدام نہ اٹھائے۔ اس وقت اچھی بات یہ ہے کہ تمام گرفتار افراد کو چھوڑ دیا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا عطا اللہ کنڈی سےعدالت میں مکالمہ کہا کہ اگر وہ رہا ہوگئے ہیں تو اچھی بات ہے ہمیں اچھے کی توقع کرنی چاہیے۔
جس پر وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ سفید ویگو آتی ہے رات تین بجے اور لاؤڈ سپیکر اٹھا لے جاتی ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جواب دیا کہ کنڈی صاحب بس چھوڑیں آپ کا شکریہ۔
بعد ازاں عدالت نےا نتظامیہ کا تمام گرفتار افراد کو چھوڑ دینے کے باعث بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں کا کیس نمٹا دیا.