میرا ذاتی خیال ہے کہ آج کل وطن عزیزکا ہرفرد اس درد سے آشنا ہے بلکہ مداوامرض سے بھی آگاہ ہے، اگر قارئین محترم آپ کو سمجھ نہیں آرہی، تو پھر سنیے، ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کسی قوم سے راضی ہیں، یا ناراض ہیں؟اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا کہ اس قوم کے حاکم کو دیکھ لیا کرو، تمہارے سوال کا جواب مل جائے گا۔
دراصل اسلام نے جو ہماری قدم قدم پہ رہنمائی عطا فرمائی ہے، اسی بنیاد اور اس خاص نقطہ نظر کی وجہ سے اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے، کہ وہ روز مرہ زندگی پر محیط تمام مسائل کے بارے میں مکمل اور مؤثر ہدایات فراہم کرتا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اسی بات چیت کے تناظر میں اگر ہم اپنے اردگرد کے علاوہ عالمی طورپر بھی ان ممالک کے حکمرانوں کا خواہ سرسری ہی جائزہ لیں، تو ہم بخوبی ان ملکوں کے حالات، اور رعایا کی خوشحالی کا بھی اندازہ لگاسکتے ہیں، اگر ہم پہلے پاکستان کے حاکم کا جائزہ لینا چاہیں ، تو سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں غیرجانبداری سے تقسیم پاکستان کے وقت سے جائزہ لینا ہوگا، حقیقت تو یہ ہے، بلکہ ہم جیسوں کے دل کی بات تو یہ ہے کہ قائداعظم ؒ کے بعد پاکستان کا کوئی بھی حاکم سوائے خان لیاقت علی خان شہید کے نظر نہیں آتا ، کہ جس کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم سے خوش ہے، موجودہ دور والے تو زیادہ سے زیادہ ایک ہی شخص کو صدر، ایک ہی کو کمانڈر انچیف ایک ہی کو وزیراعظم دیکھ چکے ہیں یعنی مشرف ،جنرل مشرف اپنے دوراقتدار میں وقفے وقفے سے فرماتے تھے، بلکہ بات بات پہ کہتے تھے، کہ میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں، آپ مجھ پہ اعتماد کریں، اورخاص طورپر آگرہ سمٹ میں پاکستان کے مؤقف کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائوں گا، اس سے پہلے بھی وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے گارنٹی اور ضمانتیں دیتے رہے ہیں، حتیٰ کہ ملک سے باہر جاتے ہوئے بھی وہ گارنٹی دے گئے تھے، قارئین ذرا سوچئے، گارنٹی کون دیتا اور کس سے لی جاتی ہے خصوصاً امریکہ اور طالبان کے معاملات پر بھی اپنے دور میں، انہوں نے یہی فرمایا تھا، کہ میں گارنٹی دیتا ہوں، کہ امریکہ اپنی حدسے تجاوز نہیں کرے گا اور مطلوبہ ہدف پورے ہوتے ہی وہ افغانستان سے چلا جائے گا مگر بعد میں امریکہ کے رویے نے یہ ثابت کیا، کہ امریکہ کا محض ایک ہی ہدف نہیں، بلکہ بہت سے اہداف تھے، کہ جن کو حاصل کیے بغیر وہ خطے سے جانا نہیں چاہتا تھا اور پھر انہوں نے یہ بھی گارنٹی دی تھی ، کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔
مگر ہمارے عوام کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ اربوں روپے افواج کی نقل وحمل جیسے اسراف پہ ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یعنی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو نفسیاتی اور ہذیانی طورپر ہراساں کرنے کی کیا ضرورت تھی، اور اگرگارنٹی دینی تھی، تو پھر پاکستان کی سرحدوں سے ہزاروں انسانوں کو بے گھر کرنے اور کھیت کھلیان کو ویران کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کے علاوہ بھی ایک چیز قابل غور ہے، کہ کروڑوں انسانوں کے حاکموں کو یہ ضرورت آخر کیوں پیش آتی ہے، کہ انہیں اپنے دور حکومت میں مسلسل اور بار بار ان گارنٹیوں کے الفاظ کو استعمال کرنے اور دہرانے کی خواہش بتدریج بڑھتی جاتی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ قوم کو تو ان کے ہرہر حرف، اور ایک ایک لفظ پر اندھا اعتماد ہونا چاہیے، قیادت کی کسوٹی کے لیے بہتر تو یہی ہے، کہ وہ اپنے قول وفعل اور اپنے افکار اورکردار کو اس حدتک مستحکم صاف ستھرا اور پختہ بنائے کہ اسے ایسی ضمانتوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، چے جائیکہ حاکم کو پیہم اور متواتر شب وروز بائیس سال تک ہلکان ہوکر عوام کو پریشان کیا جائے، مگر کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ ہرحاکم کو خواہ وہ موجودہ ہی کیوں نہ ہو، چانچنے اور پرکھنے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے ہرفرد کوبھی اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، اگر تن پر قمیض موجود ہو تو پہلے ہی روٹی، کپڑا، اور ’’پچاس لاکھ مکان‘‘ کی گارنٹی تو عوام لے ہی چکے ہیں باقی رہی ایک کروڑ نوکریاں، فی الحال (نوکر کی تے نخرہ کی) پر ہی گزارا کرلیں، کیونکہ مسلمانوں کو حاکموں سے نہیں، اللہ سے مانگنا چاہیے بس ،کسی کے ہاتھ اٹھانے کی بات ہے، واضح رہے، کسی کے سراورپشت سے ہاتھ اٹھانے کی نہیں صرف خالی جھولی، یا خالی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھانے کی ضرورت ہے، اللہ اللہ خیرصلہ
جوکچھ سوچا ہے وہی تحریر کرجائیں
جوکاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں