اِس قلم کار کے اکثر کالم اپنے قارئین کی کسی فکری اُلجھن کو سلجھانے کی غرض سے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے سوالات سے بھی واسطہ پڑتا ہے جن کا تعلق ہمارے معاشرتی روابط کے ساتھ ہوتا ہے، لامحالہ اِن سوالات کے جوابات بھی اس فقیر پر واجب ٹھہرتے ہیں۔ خیال وارد ہوا کہ گزشتہ دنوں پوچھے گئے چند سوالات اور ان کے مختصر جوابات سے اپنے قارئین کو شامل ِ خیال کیا جائے۔
امریکہ سے ڈاکٹر جمشید ہاشمی پوچھتے ہیں:
سوال: حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک بیان ہے کہ اس دنیا میں آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہونی چاہیے، چاہے آپ ڈسپلن ہی قائم کر رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو سزا نہ دی جائے تو پھر ڈسپلن کیسے قائم ہو گا، مثلاً آپ کسی ادارے کی ایڈمنسٹریشن میں ہیں، اب اس کی پالیسی کے مطابق چلنا آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے ، اگر معافی دیتے گئے تو گویا آپ اس ادارے کی پالیسی کے خلاف چل رہے ہیں۔ کیا یہ معافی پھر پرسنل کپیسٹی میں ہو گی؟
جواب: دراصل ایڈمنسٹریشن میںیہ کام مشکل ہو جاتا ہے، لیکن ناممکن نہں۔ اگر نیت معاف کرنے کی ہو، کسی کو نقصان سے بچانے کا ارادہ ہو تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی راستہ نکل آتا ہے۔ ہم کسی کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہوں، یا کسی کو نقصان سے بچانا چاہتے ہوں تو یقین مانیے کہ قانون کو اس کے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر سزا دینا چاہیں تو دنیا کے ہر قانون اور کمپنی مینوئل میں سزا پہلے سے درج ہے۔ ملازمت کے دوران میں ہم اپنے ادارے کے بہت سے کام اپنی ذاتی کپیسٹی ہی میں کر رہے ہوتے ہیں، یہ معافی والا کام بھی ہم ذاتی سطح پر کر سکتے ہیں۔ ایک دانا شخص وہی ہے جو نظام میں بگاڑ پیدا کیے بغیر لوگوں کے حالات درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر بھی ایک دوسرے کے حق میں ظالم ہو سکتے اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ کام ایک عاجز اور فقیر منش انسان کے لیے آسان ہے لیکن ایک مغرور اور اَنا پرست کے لیے مشکل بلکہ ناممکن!! ہر معاملے میں قانون کی شق دیکھنے والا شقاوت کا شکار ہو جاتا ہے۔ قانون سے پہلے انسان کو دیکھیں، اس کی مجبوری دیکھیں، اس کا عذر دیکھیں اور اس عذر کو قبول کرنے کی نیت اور صلاحیت پیدا کریں، پھر قانون معافی تلافی والا کلیہ بھی آپ کے سامنے کھول کر رکھ دے گا، بصورتِ دیگر قانون محض تعزیرات کا تازیانہ دکھائی دے گا۔ قرآن میں عدل کے ساتھ احسان کرنے کا حکم بھی وارد ہے۔
سوال: بظاہر لگتا ہے کہ اخلاق ایک قسم کی منافقت ہی ہے، کوئی شخص ہمیں بُرا لگ رہا ہے لیکن ہم اسے بُرا نہیں کہہ رہے۔ کیا یہ منافقت نہیں؟ یہی حال ادب کا ہے، ہم اپنے بڑوں کے ادب کے نام پر اُن سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ یہ منافقت اخلاق اور ادب ایک دوسرے سے کہاں پر مختلف ہوتے ہیں؟؟
جواب: منافقت اور اخلاق کے درمیان حدِ فاصل اخلاص ہے۔ فرض کریں آپ کے ایک دوست رات گئے آپ سے ملنے آ گئے، آپ اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اس کی میزبانی کرتے ہیں، اور ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی آمد پر آپ کو بہت خوشی ہوئی ہے، دراں حالیکہ وہ آپ کے آرام میں مخل ہوا ہے۔ اب یہ اخلاق ہے یا منافقت؟ اگر آپ یہ کام فی سبیل اللہ کر رہے ہیں اور اس میں آپ کی کوئی غرض شامل نہیں تو یہ سو فیصد اخلاق ہے، لیکن اگر اِس وضعداری کے پیچھے غرض یہ ہے کہ کل مجھے اس سے کوئی کام بھی لینا ہے تو یہ منافقت کی ذیل میں آئے گا۔
دراصل ادب سب سچائیوں کا سرچشمہ ہے۔ ایک سچا انسان ہی کسی بے ادبی اور بدتہذیبی سے بچنے کیلئے ’’جھوٹ‘‘ بولے گا۔ اس کے برعکس ایک جھوٹا آدمی اپنے سچ کے بے ہنگم اظہار کو ترجیح دے گا خواہ اس سے کتنے ہی انسانوں کی کردار کشی ہو جائے، خواہ کتنی ہی عزتیں پامال ہو جائیں۔ عیب پوشی بھی ایسا ’’جھوٹ‘‘ ہے جو ادب کی خاطر بولا جاتا ہے لیکن اس کا مدعا تکریم ِ انسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نکتہ چینی، شکایت، شکوہ، رنجش کا اظہار سب ایسے سچ ہیں جو انسان کو اخلاق اور معاشرتی آداب سے دُور لے جاتے ہیں۔ ایک مخلص انسان ادب کی خاطر جھوٹ بولنے کو روا سمجھے گا، اس کے برعکس ایک منافق شخص بظاہر سچ بولتا ہوا بنیادی اخلاقیات اور ادب کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے، اس لئے وہ سچائی کی دنیا میں جھوٹا قرار پاتا ہے۔ دراصل سچ اور جھوٹ سائنس کے کلیات کی طرح دو جمع دو چار کا فارمولہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کائنات کا سب سے بڑا سچ انسان ہے، حق تعالیٰ نے تکریم ِ آدم سمجھانے کے لیے فرشتوں سے اسے سجدہ کرایا۔ اب جس نے احترام بنی آدم کی خاطر سائنس کی طرح نظر آنے والا سچ نظر انداز کر دیا، درحقیقت اس نے حقیقت کی دنیا میں اپنی سچائی ثابت کر دی۔ جس نے اپنی سمجھ میں آنے والے’’سچ‘‘ کو حتمی جانا اور اپنے سے بڑے مرتبے والے انسان کے منہ پر وہ ’’سچ‘‘ دے مارا، وہ سچائی کے دائرے سے باہر ہو گیا۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے ’’سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے‘‘ کلیہ یہ ہے کہ ہر انسان کا ایک اپنا سچ ہوتا ہے، اور دوسرے کے سچ کے احترام میں ’’جھوٹ‘‘ بول دینا ادب ہے۔ اپنا سچ ثابت کرنے کیلئے دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنا ایک صریح معاشرتی بے ادبی ہے۔ سچا انسان ادب کی خاطر جو بھی رویہ اختیار کرے گا اسے سچ ہی کہا جائے گا۔
سوال: واصف علی واصفؒ کا ایک فقرہ اس مفہوم کا پڑھا کہ اپنی مشکلات کا ذکر لوگوں سے نہ کرو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم اپنی مشکلات لوگوں سے بیان کرتے ہیں تو ہمارا کتھارسس ہو جاتا ہے۔
جواب: سائیکولو جیکل کتھارسس تو اور بھی بہت سی باتوں سے ہو جاتا ہے، آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ لوگ دوسروں کی غیبت کر کے، شکوہ شکایت کر کے بھی اپنا کتھارسس کر لیتے ہیں، کتھارسس کرنے کے لیے لوگ غصہ کرتے ہیں، شاؤٹ کرتے ہیں، دوسروں کو کھری کھری سنا تے ہیں، سائیکولوجسٹ کے کہنے پر بے جان پتلوں پر ڈنڈے برساتے ہیں، اور یوں اپنے دل کی بھڑاس نکال کر خود کو ’’ہلکا پھلکا‘‘ محسوس کرتے ہیں، لیکن شخصیت کی تعمیر اور عظمتِ کردار کے حوالے سے یہ کتھارسس وغیرہ ایک نہایت ہلکا کام ہے، یہ کردار کے ہلکا ہونے کی نشانی ہے۔ یوں کتھارسس کرنے والا عام طور پر خیر اور شر کی تمیز سے محروم ہوتا ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ کسی سائیکالوجسٹ کا جملہ نہیں ہے، جس کا مدعا محض کتھارسس ہو، یہ ایک ولی اللہ، درویش اور عارف بااللہ کا فقرہ ہے جو کسی کو فقیر بنا سکتا ہے۔ یہاں جو لوگ مخاطب ہیں وہ سالکینِ طریقت ہیں، اُن کا مدعا تعلق بااللہ کی حفاظت ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے ’’مخلوق کا گلہ خالق سے نہ کرو اور خالق کا گلہ مخلوق سے نہ کرو‘‘۔ مخلوق کا گلہ خالق سے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق سے ملنے والی تکلیف کی شکایت بدعا کی شکل میں رب سے کی جائے۔ خالق کا گلہ مخلوق سے کرنے مراد یہ کہ وہ مشکلات جو انسان جانتا ہے کہ اس کے رب کی مرضی اور اِذن سے اُس کی زندگی میں آئی ہیں، اُن مشکلات کی شکایت وہ لوگوں سے کرتا پھرے۔ غم کس نے دیا؟ غم کس کی طرف سے آیا؟ آپ کہیں گے، اللہ کی طرف سے۔ پھر اِس کی شکایت مخلوق کے سامنے کیوں کی جائے؟؟ زندگی میں آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے اور اِن پر صبر کرنے سے جو اجر و ثواب ملنا ہے، جو روحانی ترقی و ترفیع ملنی ہے، مخلوق کے سامنے بیان کرنے سے وہ تمام اَجر اور منزلیں گویا ضائع کر دی جائیں؟
یاد رکھیں کہ اخلاقیات کی بنیاد برداشت ہے، جب ہم برداشت نہیں کرتے تو گویا اخلاق کے پیڈسٹل سے نیچے اتر جاتے ہیں۔ اپنی مشکلات کا ذکر اگر لوگوں سے کیا جائے تو لوگ عام طور پر تماش بین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے جس طرح اپنی کمزوریاں بیان نہیں کرتے، اس طرح ان کے سامنے اپنی مشکلات بھی بیان نہ کرنی چاہئیں۔ جو ہمارے مخلص دوست ہوتے ہیں ان کے سامنے مشکلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ ہمارے مسائل و مشکلات ہم سے بھی بہتر جانتے ہیں اور اِن کا حل ہماری توقع اور استعداد سے زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ لوگ تماشائی ہوتے ہیں، وہ آپ کی مشکل کا فائدہ اُٹھائیں گے، اور آپ کو مزید مشکل میں مبتلا کر دیں گے۔ یہ قول درحقیقت باب العلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اِس قول کی وضاحت میں ہے کہ مشکلات کا بیان مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ اس قول کی وضاحت مزید درکار ہو تو حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ بیان دیکھ لیں ’’اگر آپ تکلیف میں ہیں تو لوگوں سے اپنے حالات پوشیدہ رکھیں۔ اگر آپ آسانی میں سے گزر رہے ہیں تو لوگوں کو اس میں شریک کریں۔ آپ اپنے غم میں لوگوں کو involve نہ کرنا، شریک نہ کرنا کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی غم بڑے ہیں۔ یہ شکر کی تعریف ہے۔ آپ دوسرے لوگوں کو اپنے اعمال سے، اپنے مال سے اور اپنے خیال سے آسانی عطا کریں، لوگوں کو آسانیاں دیں، یہ زندگی کا شکر ہے کہ زندگی کسی اور زندگی کے کام آئے‘‘۔