دوستو،کراچی میں لگتا ہے ’’نئی انڈسٹری‘‘ لگ گئی ہے، اس انڈسٹری سے وابستہ لوگ مہینوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں۔ ۔ رواں برس شہریوں سے 24 ہزار سے زائد موبائل فون چھینے گئے۔پولیس کے مطابق سال 2020ء میں کراچی میں 20 ہزار 743 موبائل فون چھینے گئے جبکہ سال 2021 میں کراچی میں اب تک 24130 موبائل فون چھینے جا چکے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کراچی میں 1ہزار 560 گاڑیاں چھینی گئیں یا چوری ہوئیں، سال 2021ء میں اب تک 2 ہزار 60 گاڑیاں چھینی گئیں یا چوری ہوئی ہیں۔سال 2020 میں کراچی سے تقریباً ساڑھے35 ہزار موٹرسائیکلیں جبکہ اس سال اب تک تقریباً 50 ہزار موٹر سائیکلیں چھینی گئیں یا چوری کی گئی ہیں۔گزشتہ سال کراچی میں 507 افراد قتل کیے گئے، سال 2021ء میں اب تک 541 افراد کو قتل کیا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ کراچی میں اغوا برائے تاوان کی گزشتہ سال 24 اور اس سال 55 وارداتیں ہوئی ہیں، سال 2020ء میں کراچی میں بھتے کی 151 اس سال 116 وارداتیں ہوئیں۔ گھروں، دکانوں، سڑکوں، گلیوں میں ہونے والی وارداتیں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، رواں سال اب تک انتہائی انتہائی محتاط اندازے کے مطابق شہری 3ارب 16کروڑ روپے سے زائد سے محروم کردیئے گئے، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں دگنا اضافہ ہوا۔ پوش سمیت شہرکے دیگر علاقوں میں 480 سے زائد گھروں میں ڈکیتیاں ہوئی، موٹرسائیکلیں اورگاڑیاں چوری اور چھینے جانے کی وارداتوں میں 100فیصد اضافہ ہوا۔ شہر میں 82ہزار سے زائد وارداتیں ہوئیں، جو تھانوں میں رپورٹ ہوئی ہیں، سیکڑوں بلکہ ہزاروں سٹریٹ کرائم کے واقعات رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے۔چھینی جانے والی گاڑیاں ، موبائل فون، زیورات کہاں فروخت ہوتے ہیں؟ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کدھر جاتی ہے، کسی کو کچھ نہیں پتہ۔۔اس نئی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا، ایف بی آر اگر ان کے پیچھے پڑجائے تو ملکی خزانہ کبھی خالی نہ ہو بلکہ غیرملکی قرضے بھی اترنے کے امکانات ہیں۔۔
مقدمے کی سماعت آخری مراحل میں تھی۔ ملزم نے مطالبہ کر دیا کہ وہ اپنے وکیل صفائی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اس لئے اسے وکیل تبدیل کرنے کا موقع دیا جائے۔جج صاحب ناگواری سے بولے۔ ’’پولیس نے تمہیں جیولرز کی دکان میں ڈاکا ڈالتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ دکاندار نے بھی تمہیں پہچان لیا ہے زیورات تمہارے قبضے سے برآمد ہوئے ہیں۔ا س کے علاوہ تم آٹھ مرتبہ کے سزا یافتہ ہو۔ تمہارے خیال میں اب کوئی دوسرا وکیل تمہارے دفاع میں کیا کہہ سکتا ہے؟‘‘کٹہرے میں کھڑے ملزم نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔ سر،یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں۔۔پولیس افسر نے راستہ کاٹ کر گاڑی کو روکا اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے نوجوان سے غراتے ہوئے پوچھا۔۔۔تمہاری تیز رفتاری پر میں نے چیخ کر تمہیں رکنے کا حکم دیا تو تم کیوں نہیں رکے؟۔۔’’میں معذرت چاہتا ہوں جناب‘‘ ڈرائیور نے ندامت سے کہا۔’’مجھے اندازہ نہیں ہو سکا کہ کوئی پولیس افسر مجھے روک رہا ہے۔ میں سمجھا کہ کوئی میری گاڑی کے نیچے کچل کر چیخا ہے اس وجہ سے میں نے رکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،‘‘۔۔ ایک مسافر ریلوے سٹیشن پر بیٹھا رو رہاتھا اور روتے روتے کہہ رہا تھا۔۔ میری بیوی کو میرے ساتھ کا مسافر بھگا کر لے گیا۔ میں لٹ گیا، برباد ہو گیا۔۔اس کے ارد گرد لوگ اکھٹے ہو گئے اور کہنے لگے۔۔ اس طرح تو تمہاری بیوی کا ملنا مشکل ہے۔ تم پولیس سٹیشن پر اس واقعے کی رپورٹ درج کرا دو۔۔مسافر روتے روتے ٹھہر کر سنجیدگی سے بولا ۔۔ میں یہی تو نہیں کر سکتا، کیونکہ میں خود کسی دوسرے کی بیوی کو بھگا کر لایا تھا۔ ۔ ایک شخص پولیس کی ملازمت کا امید وار تھا۔۔ممتحن نے پوچھا۔۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو کس نے قتل کیا تھا؟؟امیدوار کچھ دیر سوچ کر بولا۔۔ جناب مجھے اس کا جواب دینے کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔۔ممتحن نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔ضرور آپ جائیں اور کل صحیح صحیح جواب لے کر آئیں۔۔وہ گھر آیا تو اسکی بیوی نے پو چھا۔۔کیا رہا تمہیں ملازمت مل گئی؟؟ وہ شخص پراعتماد لہجے میں بیوی سے کہنے لگا۔۔معلوم تو کچھ یہ ہی ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے فوراً ہی ایک قتل کا کیس دے دیا اور قاتل کی تلاش پر مامور کر دیا ہے۔۔ ایک زیرِتفتیش مشتبہ ملزم نے ایک پولیس آفیسر کی دعوت کی۔۔ دعوت میں پولیس آفیسر اکیلا دو مرغ چٹ کر گیا۔ کھانے کے بعد پولیس آفیسر نے صحن میں ایک بوڑھے مرغ کو سینہ نکالے تن کر چلتے ہوئے دیکھا تو میزبان کو مخاطب کرکے بولا۔۔ واہ بھئی واہ!آپ نے مرغ کو دیکھا کیسے سینہ تان کر چل رہا ہے۔۔ میزبان نے جلے بھنے انداز میں کہا۔۔جی ہاں، کیوں نہیں!سینہ تان کر فخر سے چلے گا کہ اُس کے دو بیٹوں نے ایک پولیس آفیسر کی خدمت کی ہے۔۔
ایک عورت ایک دکان سے چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ پولیس نے گرفتار کرلیا۔ عدالت میں پیش ہوئی تو جج نے پوچھا۔۔ خاتون آپ نے دکان سے کیا چرایا؟۔۔عورت بولی۔۔ جناب، میں نے سٹرابیری کا ایک پیکٹ چرایاتھا۔۔جج نے پوچھا۔۔اس پیکٹ میں کتنی سٹرابیری تھی؟؟ عورت نے جواب دیا۔۔ جناب، چھ عدد سٹرابیری تھیں۔۔ جج نے کہا۔۔ فی سٹرابیری کے حساب سے تمھیں 6 دن جیل رہنے کی سزا دی جاتی ہے۔۔ لیکن جج صاحب۔۔ اچانک عدالت کے ہال سے ایک آواز گونجی، اگر اجازت ہو تو فیصلہ لکھنے سے پہلے میری گذارش سن لیں۔۔جج نے اجازت دی تو وہ آدمی آگے کٹہرے میں آیا۔جج نے پوچھا۔۔محترم آپ کون ہیں؟؟ وہ شخص بولا۔۔ جناب میں اس عورت کا شوہر ہوں ۔۔جج نے کہا۔۔اوکے، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟ وہ آدمی کہنے لگا۔۔ جناب! اس عورت نے صرف سٹرابیری کاپیکٹ ہی نہیں۔ بلکہ ایک پیکٹ چنے بھی چرائے تھے۔یہ سنتے ہی جج نے فیصلہ دیا کہ اس عورت کو فوراً رہا کیا جائے کیونکہ اس کے خاوند نے سچائی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔اور اس کے بعد سے خاوند گھر سے لاپتہ ہے۔ عدالت کے باہر وکیل زمیندار کو ایک کونے میں لے گیا اور پوچھا’’میں نے کہا تھا مخالف پارٹی کے گواہ توڑنے ہیں کیا بنا؟‘‘۔زمیندار نے کہا’’ان سے طے ہو گیا ہے وہ گواہی نہیں دیں گے‘‘۔ وکیل ’’تفتیشی کو بھی کچھ لگایا کہ نہیں؟‘‘۔زمیندار’’جی کل ہی تھانے میں خدمت کر کے ضمنیاں اپنے حق میں لکھوا لی ہیں‘‘۔وکیل’’مخالف پارٹی اور سرکاری وکیل کا بھی کچھ کیا یا نہیں؟‘‘۔ زمیندار’’فکر نہ کریں وکیل صاحب وہ عدالت میں ایک لفظ نہیں بولیں گے‘‘۔ وکیل’’اور جج صاحب سے رابطہ نکالنا تھا اس کا کیا بنا؟‘‘۔ زمیندار’’جی ان کے سالے کے گھر ان سے ملاقات ہو گئی تھی انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔ وکیل ’’شاباش ویری گڈ بس اب آپ میرا کمال دیکھنا‘‘۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گناہ کو پھیلانے کا ذریعہ بھی مت بنو۔۔کیوں کہ ہوسکتا ہے آپ تو توبہ کرلو ،پر جس کو آپ نے گناہ پر لگایا ہے وہ آپ کی آخرت کی تباہی کا سبب بن جائے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔