کراچی :شمائل پر اس کے شوہر نے بہیمانہ تشدد کرکے گھر سے نکال دیا کیونکہ اس کا مفلس والد اسے جہیزمیں ڈھیر ساری رقم نہ دے سکا تھا۔مدیحہ پر اس کے شوہر نے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی اور اسے زندہ جلا کر مارڈالا تھا کیونکہ وہ اسے جہیز میں موٹرسائیکل نہ دلا سکی تھی۔ انیبہ کو اس کے شوہر نے زہر دے کر قتل کر دیا کیونکہ وہ مطالبے کے مطابق جہیز نہ لا سکی تھی۔ یہ سب سانحات حقیقی ہیں جو ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکی زہریلی روایت ’جہیز‘ کا شاخسانہ ہیں۔ پاکستان میں ہر سال یہ قبیح روایت 2ہزار سے زائد لڑکیوں کی جان لے جاتی ہے۔یہ تعداد اس سے شاید کہیں زیادہ ہو کیونکہ اس نوع کے زیادہ تر واقعات منظرعام پر ہی نہیں آ پاتے۔
ویب سائٹ mangobaaz.com کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک میں جہیز کی رسم کا خاتمہ ہو چکا ہے تاہم جنوبی ایشیاء میں یہ آج بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے جہاں لاکھوں خواتین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کنواری مر جاتی ہیں اور جن کی جہیز کے بغیر شادی ہو جائے ان میں سے اکثر کا مقدر بھیانک موت ہوتی ہے یا پھر اذیت ناک زندگی۔ پاکستان میں 1976ء میں جہیز کے متعلق ایک قانون منظور کیا گیا جس میں ا س کے لیے رقم مخصوص کر دی گئی۔ اس قانون کے مطابق جہیز پر صرف پانچ ہزار روپے خرچ کیے جا سکتے ہیں تاہم اس قانون میں جہیز کی حقیقی معنوں میں حوصلہ شکنی نہیں کی گئی۔