گلگت :گلگت کے سینئر سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے بدھ کے روز جعلی ڈگری کیس میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے سٹی پولیس سٹیشن کے ہاؤس آفیسر کو وارنٹ پر عملدرآمد اور ملزم اور اس کے ضامن کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
خالد خورشید کو پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 419، 420، 465، 468 اور 471 کے تحت گلگت بلتستان بار کونسل سے وکالت کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے لندن یونیورسٹی سے قانون کی جعلی ڈگری جمع کروانے کے الزامات کا سامنا ہے۔
سول مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خالد خورشید کی ضمانت قبل از گرفتاری ہوئی تھی، وزیر شاہ عالم اور نبی اللہ ضمانت کے طور پر کھڑے تھے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ نوٹس اور موقع فراہم کرنے کے باوجود ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ضامنوں کی جانب سے دی گئی وضاحتیں غیر تسلی بخش قرار دی گئیں۔
نتیجتاً عدالت نے 300,000 روپے کی ضمانت کی رقم ضبط کرنے کا حکم دیا ،اس کے علاوہ خالد خورشید کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 10 ستمبر 2024 تک ملتوی کردی۔
خالد خورشید، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گلگت بلتستان چیپٹر کے صدر بھی ہیں، جولائی 2023 سے اس وقت سے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں جب گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے انہیں جعلی ڈگری کے معاملے پر نااہل قرار دیا تھا۔ عدالت کے تین رکنی بینچ نے جی بی اسمبلی کے رکن شہزاد آغا کی جانب سے دائر درخواست پر انہیں نااہل قرار دیا۔
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کے سابق ترجمان علی تاج نے اس پر تشویش کا اظہار کیا جسے انہوں نے انصاف کے اطلاق میں دوہرا معیار قرار دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جہاں خالد خورشید متعدد مقدمات کے سلسلے میں مسلسل عدالتی سماعتوں میں شرکت کرتے رہے ہیں، اب ان کی گرفتاری کے احکامات جاری ہیں۔
اس کے برعکس گلگت میں دن دیہاڑے سرکاری املاک اور قومی پرچم کو آگ لگانے کے ذمہ داروں کو کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ قانون کے نفاذ میں اس تفاوت نے گلگت بلتستان کے لوگوں میں خاصی تشویش پیدا کر دی ہے۔