اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

 ملک کا بڑا علاقہ طوفانی بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال سے دوچار ہے،سندھ بلوچستان تو مکمل طور پرآفت زدہ ہیں،کے پی کے کا بیشتر حصہ تباہ حال ،جنوبی پنجاب بھی تباہی کے اندوہناک اور خوفناک مناظرپیش کر رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ مقدمہ کا کھیل کھیل رہے ہیں،سیاستدان بالکل بے حس ہو چکے ہیں،آج ملک کی تمام جماعتیں اقتدار میں ہیں ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کیا کہیں، تحریک انصاف سے قوم کی اکثریت کو امید تھی کہ اس کی قیادت اس بحرانی دور میں سیاست کو پس پشت ڈال کر اپنی ٹائیگر فورس کو متاثرین کی امدادو بحالی کیلئے وقف کر دے گی،مگر وہ مقدمات میں الجھی ہے، روز عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کر رہے ہیں، عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے جلسوں سے بھی خطاب کر رہے ہیں،زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کی جماعت بھی متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے اب تک کچھ نہیں کر سکی،پنجاب حکومت مگر وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں متاثرین کے دکھوں کو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف کار ہے،کے پی کے حکومت بھی بے بس دکھائی دے رہی ہے۔
اگر ہم واقعی قوم ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے ایک ہیں تو جسم کے ایک حصے کی تکلیف کو باقی کا جسم کیوں محسوس نہیں کر رہا؟ ہم ایسی عاقبت نا اندیش قوم ہیں کہ وقت پر کوئی کام ہم سے نہیں ہو پاتا،بارشی اور سیلابی تباہی سالوں کے وقفوں سے ہمارا ناقابل تلافی نقصان کر دیتی ہے مگر ہم قبل از وقت بچنے کا اقدام کرنے کے بجائے چپ سادھے اگلی تباہی کا انتظار کرتے رہتے ہیں، اور جب مصیبت کا پہاڑ ٹوٹتا ہے تو بلکنا اور ایک دوجے پر الزام دھرنا شروع کر دیتے ہیں،قوم کسی کو حکمرانی کا مینڈیٹ اس لئے نہیں دیتی کہ جب مصیبت آئے تو وہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے واویلا شروع کر دے،مخالفین پر الزامات عائد کر کے وسائل نہ ہونے کا جواز دیکر ہاتھ کھڑے کر دے،اصل قیادت خطرے کو بھانپ کر اس کا مقابلہ کرنے کی استطاعت پیدا کرتی ہیں اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کی سعی کرتی،قدرت نے ہم کو پانچ موسم دئیے،پانی کے ایسے ذخائر عطا کئے جو سردی کے موسم میں پہاڑوں پر ہونے والی برفباری کواپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں اور گرمیوں میں یہ برف پگھل کر ملک کے بیشتر علاقوں کو سیراب کرتا ہے،مگر ہم نے پہاڑوں سے اترنے والے نہ بارشی پانی کو کارآمد بنانے کے انتظامات کئے،اس کے باوجود کہ ہم پانی کی قلت سے دوچار ہیں،قوم کا ایک قابل قدر حصہ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے اور ہماری ناقص پلاننگ سے یہی پانی وقت بے وقت ہمیں پانی پانی کر دیتا ہے۔
کینیڈا قطب جنوبی پر قائم وسیع رقبے کا حامل ملک ہے،قطب جنوبی سے سارا سال پانی بہہ کر میدانی علاقوں کی طرف آتا رہتا ہے،بارشیں بھی معمول سے زیادہ ہوتی ہیں مگر وہاں کبھی سیلابی صورتحال پیدا نہیں ہوئی،وجہ کینیڈا حکومت نے قدرتی آبی راستوں کی حفاظت کی جو ہزاروں سال سے پہاڑوں سے اترنے والے پانی کو قدرتی طور پر قائم جھیلوں میں لے کرآتا ہے،زائد پانی نالوں کی شکل میں دریاو¿ں میں گرتا اور سمندر کا حصہ بن جاتا ہے۔
ہمارے ہاں پانی کو ذخیرہ کرنے کا قدرتی نظام موجود ہے،پہاڑی سلسلہ سے میدانی علاقہ تک آتے آتے ہم بیسیوں مقامات پر پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں،درجنوں مقامات پر ہائڈل پاور پلانٹ نصب کر کے سستی بجلی ضرورت سے زائد پیدا کر سکتے ہیں،مگر پانی کے ذخائر بنانے اور سستے پاور پلانٹ لگانے پر کمیشن ملتی ہے نہ کک بیکس،اس لئے 75سال سے ہم بارشوں اور پہاڑوں سے آنے والے پانی کو سمندر برد کر رہے ہیں،پانی کے مسئلہ پر صوبوں میں بھی اتفاق رائے نہیںآج پون صدی بعد بھی صوبے اس معاملہ پر باہم دست و گریبان ہیں،قوم کوآج تک یہ سمجھ نہیںآئی کہ مخلوط حکومت بن جاتی ہے اقتدار کی بندر بانٹ ممکن ہو جاتی ہے تو پانی کی تقسیم کا مسئلہآج تک حل طلب کیوں ہے؟اس کی واحد وجہ ، ہم انسانوں کا ہجومآج تک قوم نہیں بن سکے اور ہمارے حکمران پاکستانی نہیں بن سکے،آئی ایم ایف کی مسلسل غلامی ہو رہی ہے،کبھی امریکی اور کبھی رشین بلاک میں جانے کی بھی کشمکش جاری ہے،مگر ہم نے کبھی اسلامی بلاک بنانے کا سوچا بھی نہیں،ہر اسلامی ملک کا حکمران اپنا اقتدار بچانے کیلئے اپنی قوم کو کسی سپر پاور کی جھولی میں ڈال چکا ہے،کسی کو فرمان الٰہی یاد نہیں کہ ”مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
قومیں ہمیشہ مصیبت میں ہی متحد اور یکجا ہوتی ہیں،آج ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے،سیکڑوں جان سے گئے،لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہو گئی،جو گھر بنیادوں پر قائم ہیں ان میں پانی بھرا پڑا ہے،لوگ بچوں سمیت کھلے آسمان تلے موسم کی شدت اپنے جسموں پر جھیل رہے ہیں،کوئی سایہ ہے نہ شکم بھرنے کا سامان،بہت سے تو پینے کے پانی کو ترس گئے،مگر ہم ہیں کہ بے حس بنے ٹی وی سکرین پر یہ دلدوز مناظر دیکھ رہے ہیں مگر ہمارا احساس پھر بھی نہیں جاگتا،سیاستدان اقتدار کا کھیل کھیلتے طوفان نوح کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔
 حکومتی یا سیاسی جماعتیں تو حرص اقتدار و اختیار کے بھنور میں سرگرداں ہیں مگر منتخب ارکان اسمبلی بھی غائب ہیںاور جب عوام کے ہاتھ آ رہے ہیں تو ان کی درگت بنتے بھی دکھائی دے رہی ہے کہ انہیں اپنے حلقہ انتخاب کے باسیوں کی خبر ہی نہیں،الخدمت فاو¿نڈیشن،اخوت اور دوسری مذہبی تنظیمیں برباد لوگوں کی خبر گیری میں مصروف ہیں،مسلح افواج اس آسمانی آفت میں اپنی روایت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف کار ہیں،اسی جذبہ خدمت کے تحت کور کمانڈر کوئٹہ نے دو بریگیڈئرز کیساتھ اپنی جان کا نذرانہ وطن اور ہم وطنوں کو پیش کیا،فوجی جوان ہیلی کاپٹروں کے ذریعے خیموں کھانے پینے کی اشیاءکیساتھ متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگا کر متاثرین کو علاج معالجے کی سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس میں فوجی افسروں نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ متاثرین کی امداد کیلئے عطیہ کی جبکہ ہمارے سیاسی حکمران مخیر حضرات سے عطیات دینے کی اپیل کر رہے ہیں مگر اپنی جیب سے پھوٹی کوڑی نہ نکالی،فضائیہ اور بحریہ کے جوان بھی ریسکیو،ریلیف اور ریکوری کی خدمت میں مصروف ہیں۔
 یہ سیاست چمکانے کا وقت نہیں ،ملک و قوم آج مشکل حالات کا شکار ہے،ہر طرف قیامت صغریٰ بپا ہے،سانحات اورآفات سے متحد ہو کر ہی نبٹا جا سکتا ہے،مشکل گھڑی میں اہمیت سیاسی مفادات کی نہیں بلکہ قومی مفادات کی ہو تی ہے اورآج قوم پر اجتماعی ابتلاءسے بجا طور نبٹنے کیلئے اتحاد،یگانگت،یکسوئی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے،کہ اجتماعی عذاب کو اگر چہ ٹالا نہیں جا سکتا مگر متحد ہو کر مقابلہ کرنے سے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اللہ کے حضور جھک جانے اور دعا و¿ںکا بھی وقت ہے۔

مصنف کے بارے میں