بارشوں اور سیلاب نے ملک میں قیامت برپا کر رکھی ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این۔ڈی۔ایم۔اے) کے تازہ تریں اعداد و شمار کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں کم و بیش تین کروڑ شہری متاثر ہوئے ہیں۔جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے ۔ایک ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں۔اس قدرتی آفت کی وجہ سے پانچ لاکھ مکانات کو مکمل اور جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سات لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ فصلیں تباہ و برباد ہو گئی ہیں۔سڑکوں ، شاہراہوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس آفت کی سب سے زیادہ زد صوبہ بلوچستان پر پڑی ہے۔گھر بار سے محروم بلوچ شہری کھلے آسمان تلے شب و روز گزارنے پر مجبور ہو چلے ہیں۔ مزید مصیبت یہ ہے کہ بلوچستان میں آنے والی تباہی کی وجہ سے اس صوبے کا رابطہ دیگر صوبوں سے منقطع ہو گیا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
شدید جانی اور مالی نقصان کے پیش نظر حکومت پاکستان نے سیلاب کو قومی ایمرجنسی قرار دے دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس قدرتی آفت سے کامل طور پر نمٹنے کے حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ بارشوں سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔ دنیا ہماری مدد کرے۔دنیا ہماری مدد کر بھی رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اپیل پر عالمی اداروں اور مالیاتی تنظیموں نے سیلاب متاثرین کیلئے 50 کروڑ ڈالر سے زائد امداد کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، رفاعی اور دینی تنظیمیں، سرکاری نیم سرکاری ادارے، کالج اور جامعات اور دیگر حلقے سیلاب متاثرین کے لئے فنڈز جمع کرنے کے لئے متحرک ہیں۔ مختلف حکومتیں، ادارے اور تنظیمیں متاثرہ علاقوںمیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔کچھ ٹیلی ویژن چینلوں نے سیلاب متاثرین کے لئے فنڈز اکٹھاکرنے کے لئے ٹرانسمیشن بھی کی ہیں۔ لیکن تمام تر تحرک اورامدادی کارروائیوں کے باوجود ، اس آفت کے اثرات سے شہریوں کو مکمل طور پر بچانا ایک مشکل کا م ہے۔
ایک طرف یہ منظر ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والوں کو اس قیامت خیز قدرتی آفت کا سامنا ہے۔ گھر وں سے محروم بچے ، بوڑھے، جوان، مرد ، خواتین بھوک سے بے حال ہیں۔ زخمیوں اور مریضوں تک ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات پہنچانا مشکل ہو چلا ہے۔جبکہ دوسری طرف سیاسی سرگرمیاں بھی پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ سیلاب کے پیش نظر عمران خان کو صحافتی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے مشورہ دیا گیا تھاکہ وہ وقتی طور پر جلسے جلوس معطل کر دیں۔ کل کے اخبارات میں ان کا ایک بیان نگاہوں سے گزرا،خان صاحب کا موقف ہے کہ یہ آزادی کی جدوجہد ہے۔ سیلاب آئیں یا جنگ ہو، یہ سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے البتہ اپنی جماعت کو ہدایت کی ہے کہ سیاست کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھیں اور فی الحال سیلاب متاثرین کی امداد پر توجہ دیں۔یہ بہت اچھی بات ہے۔ تاہم اس ہدایت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما وں کی طرف سے سیاسی بیان بازی جاری و ساری ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس سیلابی صورتحال میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ قومی یکجہتی ہے۔ اس دکھی کر دینے والی صورتحال میں متاثرہ بہن بھائیوں کو ہمارے مالی اور اخلاقی سہارے کی ضرورت ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں سیاسی سرگرمیاں دیکھ کر دل دکھی ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ترجمان نت نئے بیانات جاری کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بیانات بھی وہ جس میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، لٹیرے اور غدار کہا جاتا ہے۔ کاش کہ اہل سیاست اور اہل صحافت قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
سیلابی صورتحال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ایک طرف تھر اور دوسرے صحرائی علاقوں میں پانی کی قلت کے باعث انسان اور جانور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف پانی کی فراوانی کے باعث ہزاروں لاکھوں گھر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ہمارے پاس ڈیمز نہیں ہیں۔ کئی برس بلکہ عشرے گزر جانے کے باوجود کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔دیگر ڈیمز اور پانی کے ذخیرے بنانے پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پانی نے قیامت اٹھا رکھی ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں قومی منصوبے اور تعمیر و ترقی کی سرگرمیاں ہمیشہ سیاست کی نذر ہوجاتی ہیں۔ اول کسی قومی منصوبے پر ساری قومی سیاسی قیادت اکٹھا بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اگر کوئی حکومت کوئی قومی منصوبہ شروع کرتی ہے تو آنے والی جماعت کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے بجائے، اسے بند کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔اس رویے کی وجہ یہ کہ کہیں اس منصوبے کا کریڈٹ مخالف جماعت کے سر نہ بندھ جائے۔ ایک لمبی فہرست ہے ایسے منصوبوں کی جو سیاست کی نذر ہوگئے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم ہر سال سیلاب سے مالی اور جانی نقصان تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے نہیں کر سکتے۔
اس حوالے سے ہمارا ایٹمی پروگرام ایک بہت اچھی مثال ہے۔ جوہری پروگرام ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم شروع کیا تھا۔ بعد میں آنے والے ہر جمہوری اور فوجی حکمران نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ کسی حکومت نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ کاش تمام قومی منصوبوں اور مفاد عامہ کی سرگرمیوں میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جائے۔ اس وقت وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں برسر اقتدار ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر متاثرین سیلاب کی خاطر سب جماعتوں کے قائدین مل بیٹھتے اور کوئی متفقہ حکمت عملی وضع کرتے۔ اگر وزیر اعظم شہباز شریف کیساتھ تمام صوبوں کےءوزرائے اعلیٰ اکٹھے بیٹھے دکھائی دیتے تو قومی یکجہتی کا کیسا اچھا پیغام عوام الناس کو جاتا۔
ہماری حالت لیکن یہ ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کو بھی داخلی تفریق اور اختلافات سے آگاہ کر کے جگ ہنسائی کا سامان کرتے اور اپنے ملک کا نقصان پہنچاتے ہیں۔تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔جب سے مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی ہے، وفاقی وزارت خزانہ آئی ۔ ایم۔ ایف سے مذاکرات کرنے میں مصروف ہے۔مقصد یہ کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔گزشتہ دنوں میں یہ خبر صحافتی اور سیاسی سطح پر زیر بحث رہی کہ اب جبکہ عالمی ادارے سے مذاکرات ختم ہو چکے ہیں اور چند دن میں قرض کی قسط جاری ہونے کاامکان ہے، تحریک انصاف کی طرف سے اعلان سامنے آیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آئی۔ ایم۔ ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ یہ مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ برسوں سے ہمارے ہاں یہی کھیل تماشا جاری ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور حکومتیں کمزور کرنے کے خواہشمند اصل میں پاکستان کو کمزور کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔