بارش کو ہمیشہ باران رحمت کہا جاتا ہے مگر کئی بار یہ باران رحمت زحمت بن جاتی ہے وہ اس طرح سے جب ہمارے ملک میں ڈیم نہیں ہونگے اور پانی کو محفوظ کرنے کی کوئی سہولت ہی موجود نہیں ہوگی، اسی وجہ سے جیسے ہی مون سون آتا ہے تو ہمارے ملک میں عوام بارش کی وجہ سے بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں، ندی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے ۔پچھلے سال اسلام آباد میں نالہ بپھرنے سے کتنا نقصان ہوا سب نے دیکھا اور اس وقت پورا ملک سیلاب کی زد میں ہے، خیبر سے لے کر کراچی تک پانی ہی پانی ہے جو کہ نظارہ وینس سے ملتا جلتا دکھائی دے رہا ہے۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کے بعد موٹر سائیکل گاڑیوں کے بجائے کشتی رانی راج ہوگا ۔جہاں پر ایک طرف کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا سانس بند کر رکھا ہے وہیں دوسری طرف سیلاب کے بلبلے نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، کہیں خوراک کی قلت ہوگئی ہے تو کسی کا گھر بہہ گیا ہے۔ لوگ جاں بحق ہو رہے ہیں سبزیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے سیلاب کی زد میں آ کر بے چارے عوام وحشت ناک تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں 1954 کا سیلاب تباہی لایا تھا جس سے ہزاروں لوگ بے گھر ہو کر لقمہ اجل بن گئے تھے اور یہ سیلاب مسلسل دو ہفتے تک جاری رہا تھا۔ اس سے ہمارا ہمسایہ ممالک بھارت بھی بہت متاثر ہوا تھا۔ 1954 میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ ہیضے کی وبا بھی لایا تھا اور اس وقت اس بیماری نے بہت سے لوگوں کو اپنے شکنجے میں لے لیا تھا اور تباہی مچا دی تھی۔
1970 میں آنے والے سیلاب نے جہاں حکومت کی بد گمانیاں ظاہر کی تھیں وہیں اس نے اس وقت انفراسٹرکچر کو بھی تباہ و برباد کر دیا تھا جس سے عوام نہایت افسردہ اور پسماندہ ہوگئے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزوں کو بھی کھو بیٹھے تھے ہر طرف فاقہ کشی پھیل گئی تھی۔ 1988 میں مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والا سیلاب حکومت کو آئی ایم ایف سے امداد لینے پر مجبور کر گیا تھا، ہزاروں خاندان ایک فٹ تک والی بارشوں سے متاثر اور نقل مکانی پر بھی مجبور ہو گئے تھے لیکن حالات نے یہاں بھی ان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا اور دوران نقل مکانی بہت سے حادثات کا سامنا کرنا پڑا جن میں ایک حادثہ یہ بھی تھا کہ کشتیاں ڈوب گئیں اور ہزاروں لوگ اس نقل مکانی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
1992 میں آنے والا سیلاب 45 سالہ تاریخ کا بدترین سیلاب تھا یہاں تک کہ اس سیلاب نے بڑے شہروں میں بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، دریائے جہلم اور چناب میں پانی بھرنے کے باعث پنجاب میں تباہی پھیلی تھی۔ 2001 اور 2005 میں آنے والے سیلاب نے مختلف چھوٹے اضلاع کے عوام کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ 2007 میں آنے والی سونامی نے تباہی مچا دی جو ہزاروں خاندانوں کو نگل گئی، جہاں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے تھے تو دوسری طرف حکومت کو بھی کھربوں کا نقصان ہوا۔ سیلاب کے باعث وہ میٹھا پانی ضائع ہوتا ہے جو فصلوں کے لیے اور صوبوں کی خوشحالی سر سبز انقلاب کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں سیاسی معاملات کو دیکھیں تو 1997 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو دو تہائی اکثریت ملی تھی تو اس وقت نواز شریف نے اسمبلی میں ڈیم بنانے کے بہت بلند بانگ دعوے کیے تھے مگر وہ بھی اس اہم پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اگر ایک طرف قدرتی آفات ہیں تو دوسری طرف یہ سیاسی جماعتیں جو بڑے بڑے ڈیمز بننے نہیں دیتی وہ ملک پر عذاب بنی بیٹھی ہیں۔
جنرل(ر) پرویز مشرف جب 1999 میں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے تو انہوں نے بھی ڈیمز کا وعدہ کیا تھا تاہم افتتاح تو کرتے گئے تھے مگر سب سے زیادہ اختیار ہونے والے حکمران کے باوجود بھی وہ اس پر کام نہ کرا سکے جس کا نتیجہ آج بھی ہم جیسی غریب عوام بھگت رہی ہے پاکستان میں ڈیمز کی تکمیل وقت کی اہم ضرورت ہے اسی طرح ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس نے بھی ڈیم پر بہت زور دیا۔ ثاقب نثار نے تو عوام سے ڈیم کے لیے چندہ اکٹھا کیا مگر وہ چندہ آج تک پتہ ہی نہیں چلا کہ کدھر گیا اور ان کے جاتے ہی یہ معاملہ وہاں کا وہیں رہ گیا۔ اگر ہم بھارت کو دیکھیں تو اس نے بڑے بڑے پروجیکٹ بنا کر ان کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہوا ہے آج بھارت بجلی میں بھی خود کفیل ہے۔
پاکستان میں مون سون سے اس سال 2022 میں ایک بڑی آبادی بُری طرح متاثر ہوئی ہے، لاکھوں افراد متاثر ہو گئے ہیں، کل جانی نقصان دو ہزار سے اوپر ہے، بے گھر ہونے والے افراد کے اعداد و شمار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا ابھی تک این ڈی ایم اے کی صورتحال رپورٹ کے مطابق وسط جون سے جب مون سون شروع ہوا تو تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں،130 پل اور ہزاروں گھروں کو نقصان پہنچا۔ یہ اعداد وشمار بھی یو این او سی ایچ کے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق رواں سال صوبہ سندھ میں ہونے والی بارشوں کی اوسط سے 784 فیصد زیادہ ریکارڈ اور صوبہ بلوچستان کی اوسط کے مقابلے میں 500 فیصد سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ابھی مزید بارشوں کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے عالمی برادری اور عوام سے امدادی سرگرمیوں میں معاونت کی درخواست کی جا رہی ہے مزید یہ کہ 4.25 ملین ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچا اور لائیو سٹاک کے ساتھ معاش پر اثر پڑا اور کھانے کے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ سیلاب سے پہلے ہی پاکستان میں 4.66 ملین افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا۔ یہ جو آج میرے وطن عزیز میں ڈیمز نہیں بن سکے اس میں سب سے زیادہ قصور میرے ملک میں گندا سیاسی نظام بڑی وجہ ہے۔ آج بھی یہ لوگ عالمی برادری کا منہ دیکھ رہے ہیں کہ مدد کی جائے مگر اپنا وی آئی پی کلچر چھوڑ رہے ہیں نہ ہی شاہانہ زندگیوں سے باہر آ رہے ہیں۔ اپنی سیاسی جنگ نہیں چھوڑ رہے، اقتدار کے نشے میں بُری طرح دھت ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں خطرناک حد تک چلا گیا ہوں، وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں سب سے اچھا ہوں، کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو خدارا اس وقت پر تو ایک ہو جائیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کا اگر کوئی پروجیکٹ شروع ہوتا ہے تو اسے سیاسی اثر و رسوخ سے روک دیا جاتا ہے۔ کچھ نہیں کر سکتے تو سب سیاسی پارٹیاں مل کر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنا لیں۔ مگر یہ عقل میرے ملک کے حکمران اشرافیہ میں اگر ہوتی تو کسی دوسرے سے مانگنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے کے خود طریقے نکالتے، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ خدارا اب تو رحم کریں کچھ ہوش کے ناخن لیں، آپ لوگوں کی سیاسی جنگ میں ملک سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔۔۔
اٹھیے غریب شہر کا لاشہ اٹھائیے
اٹھی نہیں یہ خاک خدارا اٹھائے