کابل: افغان جماعت حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ طالبان کا ترجمان نہیں بھائی ہوں اور طالبان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ ہم نے طالبان سے کبھی حکومت کا مطالبہ نہیں کیا لیکن اگر انہوں نے کہا تو غور کریں گے۔
حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں حالیہ واقعات مثبت ہیں، ہم اور عوام یہی چاہتے تھے جبکہ اقتدار کے الگ مراکز بنے ہوئے تھے مگر اب ایسا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف کابل میں فائرنگ کے کچھ واقعات ہو رہے ہیں جبکہ باقی ملک میں امن ہے اور افغانستان پر جنگ باہر سے مسلط کی گئی تھی لیکن اچھی بات ہے کہ عوامی خواہشات کے تحت غیر ملکی قوتیں جا رہی ہیں اور بیرونی افواج کا منصوبہ تھا کہ پر امن انتقالِ اقتدار نہ ہو کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ہمارے جانے کے بعد ایک نئی جنگ شروع ہو جائے۔
گلبدین حکمت یار نے کہا کہ طالبان کابل کے دروازے پر تھے اور وہ پرامن انتقالِ اقتدار تک اندر نہیں آنا چاہتے تھے جبکہ اشرف غنی اور ان کی ٹیم بھاگی تو طالبان سے رابطہ کیا گیا کہ وہ اندر آ جائیں جبکہ طالبان چاہتے تھے کہ وزارتِ دفاع اور داخلہ سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو اندر بلا کر خونریزی کا منصوبہ بنایا گیا تھا جو ناکام ہو گیا لیکن ہمارا طالبان کو مشورہ تھا کہ وہ اسلحے سمیت کابل میں داخل نہ ہوں اور غیر ملکی طاقتوں کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت بنائیں، غیر ملکی قوتیں طالبان کو پابندیوں کی دھمکیاں دے رہی ہیں اور یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ہم طالبان کو قبول نہیں کریں گے۔
حزبِ اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغان عوام کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے دی جائے، 31 اگست کے بعد حکومت کے قیام کے لیے مشاورت ہو گی، کونسل بنائی گئی تھی وہ طالبان سے نئی حکومت کے قیام پر بات کرے گی، ہم نے طالبان کو ایک عبوری حکومت کے قیام کا مشورہ دیا تھا، اسی مشورے کے تحت اب اداروں کے عبوری سربراہ بنائے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت چلے، کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی ایسے ملک کو دی جائے جو ہمارے ملک کے بارے میں غلط عزائم نہ رکھے اور ہمارا مشورہ ہے کہ افغان مل کر نئی حکومت کے لیے اتفاق قائم کریں جبکہ دہلی مداخلت سے باز رہے اور افغان عوام کو یقین دلائے کہ وہ یہاں کسی مسئلے میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔
گلبدین حکمت یار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بھارتی سابق فوجی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ بھارت احمد شاہ مسعود کو پیسے دے اور سپورٹ کرے جبکہ افغان امن بھارت سمیت سب کے فائدے میں ہے اور بھارت پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان کی طرح ماضی کی غلطیاں مانے اور عدم مداخلت کا اعلان کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنج شیر میں برناڈ نامی ایک یہودی نژاد فرانسیسی آیا ہے اور یہ ماضی میں بھی احمد شاہ مسعود کے ساتھ رہا ہے اور اس شخص کے ساتھ 600 افراد کی انٹیلی جینس ٹیم ہے۔
حکمت یار نے کہا کہ خواتین کے لیے شرعی لباس جائز ہے اور طالبان خواتین کو شرعی لباس میں دفاتر میں کام کرنے کی اجازت دیں جبکہ مغرب کو ہمارے ملک میں خواتین کے لباس پر ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کا اختیار نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ اگرہم مل کر حکومت بنائیں تو بھی امریکا اور اس کے اتحادی افغان حکومت کو قبول نہیں کریں گے، چین افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا لیکن امریکا نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔
داعش سے متعلق حزبِ اسلامی کے سربراہ کا یہ کہنا ہے کہ داعش ایک مسئلہ ہے مگر اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، داعش کسی مسئلے کی بنیاد بھی ہو سکتی ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء ہو گیا تو داعش کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔