کابل ائیر پورٹ کے علاقے میں دو بم دھماکوں میں غیر ملکیوں سمیت 200 کے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ ایک اور عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر کے یہ پیغام دیا ہے افغانستان کا المیہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ طالبان مخالف داعش کی موجودگی اور اس کی دہشت گردی کی پہلی کارروائی ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان میں مکمل امن ابھی دور ہے اور امن کی بحالی کے لیے دنیا کو طالبان کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ ماضی سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے امن سے دنیا کا امن جڑا ہوا ہے اس لیے اقوام عالم کو اس نکتے کی طرف توجہ دینی چاہیے چہ جائیکہ ماضی کی طرح کوئی اور المیہ جنم لے۔ کسی بھی ملک میں ایک مستحکم حکومت کے بغیر امن ممکن نہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے تمام دھڑوں کے ساتھ ملا کر حکومت بنانے کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن یہ پلک جھپکتے نہیں ہو گا اور اس میں وقت لگے گا۔ افغانستان میں تمام دھڑوں پر مشتمل حکومت کے قیام اور انتظامی و سیاسی سیٹ اپ اور نظام حکومت کے لیے لویہ جرگہ کا اجلاس بلا لیا گیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ اس کے مثبت نتا ئج نکلیں گے۔ 40 سالہ بیرونی قوتوں کے قبضے اور بد ترین خانہ جنگی کے بعد طالبان بھی سمجھ چکے ہیں کہ وہ تنہا ملک نہیں چلا سکتے اور وہ تمام دھڑوں سے رابطہ میں ہیں لیکن نکتہ چینی کی بجائے انہیں وقت دیں۔
طالبان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک تباہ شدہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو نئے سرے سے کھڑا کرنا اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی وہ اقوام عالم کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔ ابھی اقوام عالم بھی ان کے بارے میں شبہات کا شکار ہیں اور طالبان کو اپنے آپ کو دنیا کے لیے قابل قبول بھی بنانا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کی اب تک کیے گئے اقدامات کو سراہا جا رہا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اقوام عالم کو بھی افغانستان میں نئے سیٹ اپ کے قیام کے لیے وقت دینا چاہیے اور ماننا چاہیے کہ ایک متفقہ سیاسی سیٹ اپ نیٹو کے تحت چند ملکوں کے فوجی اتحاد
سے بالکل مختلف اور مشکل کام ہے۔ اقوام عالم سمیت امریکہ اور اتحادیوں کو بھی اس نکتے کو سمجھنا چاہیے۔ اگر اشرف غنی افغانستان سے فرار سے قبل طالبان سے مل کر انتقال اقتدار کے لیے ایک عبوری سیٹ اپ تیار کر جاتے تو افغانستان میں افراتفری نہ پھیلتی اور انتظامی ڈھانچہ بھی کسی حد تک قائم رہتا۔ بدقسمتی سے امریکہ اور اتحادیوں نے بھی اس طرف توجہ نہ دی اور افغانستان کو ایک اور بحران کا شکار کر دیا۔ اس پر داعش کی دہشت گردی کی مزید کارروائیوں کی دھمکیوں نے کسی سکیورٹی اتھارٹی سے محروم افغان عوام کو مزید عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے اور شورش زدہ وطن سے انخلا ہی میں ان کو عافیت نظر آئی۔ گو کہ طالبان نے افغان شہریوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی ہے لیکن اصل کام ان کو احساس تحفظ فراہم کرنا ہوگا تا کہ وہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے سکیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اتحادیوں کے افغانستان سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اچانک انخلا سے جہاں دنیا حیران ہوئی وہیں طالبان کو بھی سیاسی، حکومتی اور انتظامی امور طے کرنے میں جھٹکا لگا۔
طالبان نے غیر ملکی افوج کے انخلا کے لیے ایک حتمی تاریخ دے دی لیکن اس میں ان اسلامی ممالک کو بھی شامل کر دیا جو افغانستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے رہے تھے۔ ان میں ایک اہم اسلامی ملک ترکی بھی شامل ہے۔ طالبان کابل ائیر پورٹ کا انتظام ترکی کے سپرد کرنا چاہتے تھے لیکن طالبان کے غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان پر اب ترکی نے بھی اپنے تمام فوجی اور سویلینز کو واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میری رائے میں طالبان کو افغان دوست اور مخالف ممالک میں تمیز کرنی چاہیے تا کہ جب تک افغانستان مستحکم نہ ہو تو دوست اسلامی ممالک اس کے انفرا سٹرکچر کی تعمیر نو میں حصہ لے سکیں۔
دوسری طرف دنیا افغانستان میں نظام حکومت پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ ان کے لیے عرض ہے کہ نظام حکومت کا انتخاب کسی بھی ملک کا حق ہے اور افغان عوام کو بھی یہ حق ملنا چاہیے۔ ممکنہ نظام حکومت جس کے ابھی خدوخال بھی سامنے نہیں آئے ان پر قبل ازوقت اعتراض کرنا بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ پھر دنیا کو جلدی بھی ہے کہ افغانستان میں نیا سیاسی سیٹ اپ بن کیوں نہیں رہا جہاں دنیا نے 20 سال امریکہ کاافغانستان پر ناجائز قبضہ برداشت کیا اب طالبان کو اتنا وقت دیں کہ وہ اس قبضے کے اثرات سے باہر نکل کر کم از کم اپنی کمر سیدھی کر سکیں۔
دوسری طرف پاکستان کے دیسی سرخے اور دیسی سبزے بھی جلدی میں ہیں۔ سرخے یا لبرلز طالبان کے ماضی کے حوالے سے ان کے بارے میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں اور انہیں سنبھلنے کا موقع دینے کو تیار نہیں۔ جبکہ سبزے یا دائیں بازو کے حمایتی زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور طالبان کو افغانستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے مشورے دے رہے ہیں اور کئی ایک نے تو اپنی مشاورت کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ ان کے لیے عرض ہے کہ افغانستان میں نظام حکومت اور سیاسی ڈھانچے کا فیصلہ افغانوں کو کرنے دیں۔
حکومت کے افغان معاملے پر غیر جانبدار رہنے کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ افغانستان کے مسئلے پر اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بڑا پلیٹ فارم کوئی نہیں۔ بسم اللہ کریں۔
دیکھا گیا ہے کہ ہماری اپوزیشن کی جماعتیں ذاتی ایجنڈے اور حکومت مخالف کسی بھی معاملے پر مشترکہ لائحہ عمل کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلاتی رہتی ہیں لیکن افغانستان کا مسئلہ شاید ان کے نزدیک اتنا بڑا نہیں کہ اس پر توجہ دی جا سکے۔ اس کی بجائے وہ اپنی سیاسی ساکھ اور بقا ء کے لیے جلسے جلوسوں میں مصروف ہے۔ اپوزیشن افغان معاملے پر پارلیمنٹ کواعتماد میں لینے کی بات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلوانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی تو عرض ہے کہ اپوزیشن ایوان بالا اور ایوان زیریں کا اجلاس بلوانے کی اہلیت رکھتی ہے تو محض اعتراضات اٹھانے کی بجائے اپنا کردار ادا کریں انتظار کس بات کا۔۔۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔
افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں ……
10:18 AM, 29 Aug, 2021