یوں تو ہم سیاست سے توبہ تائب ہو چکے مگر محض ”چسکے“ کے لیے اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارا مطالعہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ہوتا ہے، سچ یہ کہ اِن ”کورونوی“ دنوں میں سارا دن ”ویہلے“ رہ رہ کر بور ہوتے رہتے تھے۔ کورونا سے پہلے کے دنوں میں ہم مارکیٹوں کا رُخ کرتے، تقریبات میں شرکت کرتے اور پیزا برگر کھا کھا کر دن گزار لیتے۔ کبھی جی میں آئی تو پہاڑوں کی سیر کو نکل جاتے۔ پاکستان میں بور ہو جاتے تو بیرونِ ملک چلے جاتے لیکن کورونا نے سب کچھ تَلپٹ کرکے رکھ دیا۔ جینے کی اُمنگیں ابھی جوان لیکن کورونا کی زنجیریں کڑی۔ اِس لیے سوچا کہ چلو اخبارات کے ڈھیر کو ”مُنہ مارتے“ہیں۔ اب ہمارے سامنے یا تو اخبارات ہوتے ہیں یا پھر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا۔ زبردستی مطالعے کی اِس عادت نے یہ عُقدہ بھی وا کر دیا کہ ہمارے رَہنماء جیلوں سے ”صاحبِ کتاب“ بن کر کیسے نکلتے ہیں۔ بیچارے اقتدار کا نشہ چکھنے کے بعد جب کوئے یار سے نکلتے ہیں تو سیدھے سوئے دار۔ اب دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں اور عالمِ خودکلامی میں دِل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں۔ یہی دیواروں سے باتیں اور دِل کے پھپھولے کتابی صورت میں سامنے آجاتے ہیں۔ ہماری مطالعے کی عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بعض اوقات کوئی چسکے دار خبر سامنے آجائے تو طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ اِسی لیے آج ہم خبروں پر تبصرہ کریں گے۔
پہلی خبر یہ کہ امیرِ جماعتِ اسلامی محترم سراج الحق نے فرمایا ”وزیرِاعظم اپنی 22 سالہ جدوجہد کی بات کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی تو 80 سالہ جدوجہد ہے“۔ غالباََ محترم امیر کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوگا کہ اگر 22 سالہ جدوجہد سے وزارتِ عظمیٰ ملتی ہے تو 80 سالہ جدوجہد سے جماعت اسلامی کو 4 بار وزارتِ عظمیٰ ملنی چاہیے تھی۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے جَگ ہنسائی کی کہ آخر جماعت اسلامی کبھی بھی وزارتِ عظمیٰ کی حقدار کیوں نہیں ٹھہری؟۔ صرف ایک دفعہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن وہ بھی مولانا فضل الرحمٰن ڈکار گئے۔ بصد ادب گزارش ہے کہ موجودہ حالات میں وطنِ عزیز میں اسلامی نظام کی آمد کا دور دور تک چانس نہیں جبکہ جماعت اسلامی نظامِ اسلام کی تگ ودَو میں مصروف۔ اِس لیے یہی کہا جا سکتا ہے ”پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ“۔
دوسری خبر جو آجکل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنی ہوی ہے، افغانستان میں طالبان کی
محیرالعقول فتح ہے۔ 2 اگست 2021ء تک افغانستان کے 91 اضلاع میں طالبان کی حکومت تھی اور 171 اضلاع افغان صدر اشرف غنی کی عملداری میں تھے۔ محض 13 دنوں بعد 15 اگست 2021ء کو طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور اشرف غنی ”دُڑکی“ لگا گیا۔ اب طالبان کی موجیں ہی موجیں کہ اُنہیں بیٹھے بٹھائے وہ 100 روسی ساختہ ہیلی کاپٹر بھی ہاتھ آگئے جو امریکہ نے روس سے خریدے تھے۔ اِس کے علاوہ امریکہ کا چھوڑا ہوا بیشمار اسلحہ بھی مفت ہاتھ لگا۔ ہم نے یہی خبر ایک لبرل کو سنائی تو اُس نے مُنہ ٹیڑھا کر کے کہا کہ اِن ہیلی کاپٹروں کو اُڑائے گا کون، کیا سائیکل اور موٹرسائیکل سوار طالبان؟۔ ہم نے بھی تُرت جواب دیا کہ جیسے خانِ اعظم نئے پاکستان کو چلا بلکہ اُڑا رہے ہیں، ویسے ہی طالبان بھی اُڑا لیں گے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق طالبان تقریباََ 1640 کھرب پاکستانی روپے کی معدنیات کے مالک بن گئے ہیں۔ یہ معدنیات ایلومینیم، تانبا، لوہا اور لیتھیم پر مشتمل ہیں۔ زمرد، یاقوت اور لاجورد کے ذخائر اِس کے علاوہ ہیں جو ہمیشہ سمگل ہوتے رہے۔ افغانستان کے مرکزی بینک میں لگ بھگ 10 ارب ڈالر بھی موجود۔ گویا طالبان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سَر کڑاہی میں۔ دنیاکی اُبھرتی ہوئی طاقت چین نے طالبان کے صدارتی محل پر قبضے کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ کاروبار کے لیے تیار ہیں۔ اب اگر پوری دنیا بھی طالبان کا بائیکاٹ کر دے تو یہ بوریا نشیں جھکنے والے نہیں۔ طالبان نے انتہائی حکمت سے کام لیتے ہوئے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ افغانستان کے تمام سیاسی گروہوں کو ساتھ ملا کر نئی حکومت تشکیل دیں گے جو اسلامی ہو گی۔ کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے بم دھماکوں کی داعش نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ امریکہ اورطالبان نے اِس سانحے پر بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ طالبان نے پہلے ہی سے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ ٹی ٹی پی ہو، القائدہ، داعش یا کوئی دوسرا گروہ، کسی کو بھی دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ طالبان کے اِس اعلان پر بھارت کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے ہیں۔
طالبان رَہنما مُلّا شہاب الدین دلاور نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ذاتی معاملات میں مداخلت بند کر دے۔ اُدھر افغانستان میں طالبان کے آنے پر بھارت میں سوگ کی کیفیت طاری ہے اور بھارتی میڈیا افغانستان میں لگائے گئے اربوں ڈالرز کے زیاں پر مودی کو لعن طعن کر رہا ہے۔ جس طرح ہم لاہوریوں کو سِری پائے بہت مرغوب ہیں اُسی طرح بھارت میں حیدرآبادی بریانی کے بہت چرچے ہیں۔ یہ بریانی خشک میوہ جات سے تیار ہوتی ہے۔ یہ میوہ جات افغانستان سے براستہ پاکستان بھارت جاتے تھے۔ اب طالبان نے بھارت جانے والی ٹرانزٹ کارگو روک دی ہے جس سے حیدرآبادی بریانی بہت مہنگی ہو گئی۔ بریانی کے شوقین سرِعام مودی پر تبرّہ بھیج رہے ہیں جبکہ مودی بھارتیوں کو بار بار کہہ رہا ہے ”گھبرانا نہیں“۔ شنید ہے کہ مودی نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ وہ 100 دنوں میں حالات بدل کے رکھ دے گا لیکن شاید اُسے یہ علم نہیں کہ ہندو ہم پاکستانیوں جیسے نہیں جو صبر کرکے بیٹھ رہیں، وہ تو متواتر گھبرائے ہی جا رہے ہیں۔
تیسری بڑی خبر تحریکِ انصاف کی 3 سالہ کاکردگی ہے۔ 26 اگست 2021ء کو 3 سال مکمل ہونے پر وزیرِاعظم نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اُن کی حکومت کی کارکردگی سابقہ حکومتوں سے کہیں بہتر رہی۔ وزیرِاعظم کے اِس خطاب کے بعد اپوزیشن بھی ”لنگوٹ کَس کے“ میدان میں اُتر آئی اور تا حال حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دے رہی ہیں۔ ہمیں چونکہ سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں اِس لیے ہم اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑتے۔ سچی بات تو یہ کہ اِس گورکھ دھندے کی ہمیں کبھی سمجھ آئی نہ عوام کی غالب اکثریت کو۔ ہمیں اگر سمجھ آجاتی تو ہم بھی سٹیٹ بینک کے گورنر ہوتے۔ عوام کی طرح ہم بھی صرف پیٹ کی معیشت کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں البتہ یہ سوجھ بوجھ حکمرانوں کو ہے نہ معیشت دانوں کو۔ جب ”پاپی پیٹ“ کا سوال اُٹھتا ہے تو قوم پکار اُٹھتی ہے کہ حکمرانوں کو فکرِفردا ہے نہ غمِ دوش۔ اُنہیں گزشتہ تین سالوں میں مہنگائی کی برق رفتاری کا علم ہے نہ آنے والے دنوں میں اِس کے علاج کی کوئی فکر۔ قوم کو وہی ”کرپٹ“ لوگ اچھے لگنے لگے ہیں جن کے دَور میں 2018ء کے ابتدائی مہینوں تک چینی 54 روپے کلو، گھی 180 روپے لٹر، باسمتی چاول 120 روپے کلواور پٹرول 95 روپے لِٹر ملتا تھا۔ وہ حکمران بھلا کیسے اچھے لگیں گے جن کے دَور میں چینی 110،گھی 320، باسمتی 180 اور پٹرول 120 روپے لِٹر ملتا ہو۔ اُنہیں وہ دَورِحکومت بھلا کیسے اچھا لگے گا جس میں روپے کی قدر 40 فیصد کم اور ڈالر 40 فیصد مہنگا ہو گیا۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ وہ بجلی کا سوئچ آن کرنے اور گیس کا چولہا جلانے سے بھی ڈرتے ہیں اِس کے باوجود ہر ماہ ہزاروں روپے بِل آجاتا ہے۔قوم کے پاس کپتان کی طرح کوئی کنٹینر بھی نہیں جس پر کھڑے ہو کر وہ یوٹیلٹی بلز جلا سکیں۔ اب تو ہم بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ حکمران فکرِفردا اور غمِ دوش سے بے نیاز ہیں۔