رانا ثناء اللہ کے کیس کی سماعت کرنے والے جج کے تبادلے کی وجہ سامنے آ گئی

رانا ثناء اللہ کے کیس کی سماعت کرنے والے جج کے تبادلے کی وجہ سامنے آ گئی
کیپشن: image by Twitter

لاہور: رانا ثناء اللہ کے کیس کی سماعت کرنے والے جج مسعود ارشد کو جانبداری اور دیگر شکایات کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کے ہیروئن برآمدگی کیس کی سماعت کرنے والے جج انسداد منشیات کورٹ لاہور مسعود ارشد کی ڈیپوٹیشن پر لی گئی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کر دی تھیں۔جج مسعود ارشد کو سات فروری 2017ء کو عرصہ تین سال کے لیے ڈیپوٹیشن پر لاہور میں خصوصی عدالت کا جج تعینات کیا گیا تھا لیکن گذشتہ روز ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔

اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت قانون کو فاضل جج کی جانبداری اور دیگر شکایات موصول ہوئی تھیں جس کہ وجہ سے ان کی خدمات واپسی کے لیے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو خط بھی لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ منشیات اسمگلنگ کیس کے ملزم لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کے مقدمے کو سننے والے جج کو تبدیل کیا جائے۔

اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہونے تک بطور جج کام کرسکتے ہیں لیکن نوٹیفکیشن کے بعد اخلاقی طور پر فاضل جج کو کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہئے تھی۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے اس حوالے سے کہا کہ جج مسعود ارشد کا تعلق مسلم لیگ (ن)سے رہا جو اس کیس کی سماعت کے دوران واضح ہو رہا تھا ، انہوں نے مزید کہا کہ جج مسعود ارشد کے عدالت میں واٹس ایپ کے حوالے سے ریمارکس بھی مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں جو کہ عدالتی وقار کے منافی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا وتیرہ رہا ہے کہ جب ان کوعدالتوں سے مطلوبہ ریلیف نہیں ملتا تو وہ عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کیس میں بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

گذشتہ روز اس حوالے سے جب مسلم لیگ ن نے پراپیگنڈہ شروع کیا تو مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب شہباز گل نے ججز کی تبدیلی کا آرڈر شئیر کیا اور کہا کہ آرڈر سے صاف ظاہر ہے کہ ججز کی تبدیلی کا نوٹیفکیشن 26 اگست کو جاری ہوا تھا ، لیگی قیادت کو دو دن بعد واویلا کرنا کیوں یاد آیا؟