فلاحی ادارے معاشرے کا حسن ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب معاشرہ اور افراد اپنا اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو این جی اوز یعنی فلاحی ادارے وجود میں آتے ہیں۔ یہ ادارے عوام کے تعاون سے اپنی خدمات کی ترسیل ممکن بناتے ہیں ۔ فلاحی اداروں سے قطع نظر بھی یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنی ذات میں خود ایک این جی او بن جائے اور اپنے اطراف موجود یتامیٰ، مساکین و بیوائوںاور مجبوروں کی فلاح و بہبود کیلئے انفرادی و اجتماعی اقدامات کرے ۔ یوں معاشرے کا نہ صرف حسن بحال ہو جائے گا بلکہ سوسائٹی کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
فلاحی اداروں کو اپنی کاوشیں جاری رکھنے کے سلسلے میں مختلف چیلنجز سے گزرنا پڑ تا ہے جس کی وجہ سے رفاہی کاموں کا دائرہ کار ہمارے ہاں محدود نہیں تو بہت وسیع بھی نہیں ہے ۔ تاہم اس کے باوجود مستند فلاحی اداروں کا وجود معاشرے کیلئے نہایت حوصلہ افزاء ہے ۔ ان اداروں کے ساتھ تعاون (چیریٹی) کے حوالے سے پاکستانی قوم کے کردار کی دنیا بھی معترف ہے ۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایسا ہی ایک مستند اور بااعتماد فلاحی ادارہ ہے جو گذشتہ 26 سال سے پاکستان کے دیہاتوں کو خواندہ بنانے کیلئے کوشاں ہے ۔ پاکستان کے دور دراز دیہاتوں میں تعلیم کا فروغ یقینی بنانا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا ویژن اور مشن ہے ۔ شہروں میں تو بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں لیکن دیہاتوں پر افراد اور اداروں کا رجحان بہت کم ہے ۔ جس کی وجہ سے دیہاتوں کے بچے زیادہ تر علم سے محروم ہی رہتے ہیں۔ دیہی بچوں کو علم کی دولت سے آراستہ کئے بغیر 100 فیصد شرح خواندگی کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی عزم کو لئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور 26 سال سے مسلسل اسی پیرائے پر چلتے ہوئے اب تک دیہاتوں کے لاکھوں بچوں کو تعلیم یافتہ بنایا جا چکا ہے۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بہت محدود وسائل میں بہت بڑا کام کر رہا ہے ۔ یہ پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں کام کرنے والا سب سے بڑا دیہی تعلیمی نیٹ ورک ہے جس کے تحت ان دور دراز دیہاتوں میں 650 سے زائد سکول قائم ہیں ۔ یہاں کم وسیلہ خاندانوں کے 1 لاکھ کے قریب بچوں کو نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے ، بلکہ تعلیمی ضروریات بھی ان کی دہلیز تک پہنچاتے ہوئے ہزاروں مستحق اور یتیم بچوں کی تعلیمی کفالت کا فریضہ سر انجام دیا جا رہا ہے ۔ دیہاتوں کے نظر انداز سپیشل بچوں کے علاوہ اقلیتی برادی کے بچوں کیلئے تعلیمی کاوشیں بھی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی کارکردگی میں شامل ہیں ۔
گذشتہ 2 دہائیوں میں سینکڑوں خصوصی بچوں کو بحالی کی جانب لایا جا چکا ہے ۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب میں ہندو بچوں کیلئے الگ سکول قائم گئے ہیں جہاں 800 سے زائد ہندو بچے اور بچیاں ، ہندو اساتذہ ہی کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ان بچوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے جبکہ نصاب میں بھی انہیں ان کی مذہبی کتاب ہی پڑھائی جا رہی ہے ۔
غزالی ٹرسٹ کی انہی کاوشوں کی بدولت ادارے کو حال ہی میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا ہے ۔ بلاشبہ یہ ایوارڈ دئیے جانے کا مطلب حکومت پاکستان کی جانب سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی کارکردگی کا اعتراف ہے ۔ دوسری جانب عالمی فلاحی ادارے بھی غزالی ٹرسٹ کے معترف ہیں ۔ جبکہ قلم قبیلے کے بہت سے سینئرز اور نمایاں نام بھی اپنے اپنے کالموں میں بارہا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو تعریفی سند سے نواز چکے ہیں ۔
ایسے علاقے جہاں لوگوں کو روز مرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے وسائل ہی میسر نہیں ، جہاں لوگ اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے فکرمند ہوتے ہوئے بھی ان کی تعلیم کیلئے کچھ نہیں کر پاتے ۔ ایسوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ذمہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے اٹھا رکھا ہے اور ان کے بچوں کی تعلیمی کفالت مخیر حضرات کے تعاون سے کی جا رہی ہے ۔ خواندہ دیہات غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا ویژن ہے ۔ یقینی طور پر دیہات خواندہ ہوں گے تو ہی وطن عزیز 100 فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کر سکے گا ۔
میری گذارش ہے کہ مخیر حضرات اپنے عطیات کی لسٹ میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو بھی ضرور شامل کریں ۔ یہ ہر لحاظ سے ایک مستند ادارہ ہے ۔ خدمات کی بلا تعطل ترسیل کیلئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں کی سرپرستی اشد ضروری ہے ۔ بدقسمتی کے ساتھ ہم بحیثیت معاشرہ اپنے فرائض سے غافل ہیں ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے معاشرے کے تمام طبقے اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں اور ایک ’’انسان دوست‘‘ معاشرے کی تشکیل کیلئے جدوجہد کریں ۔
آئیے، اس رمضان المبارک میں Law of Giving کا نظریہ اپنانے کا عہد کریں ۔ خود سے وعدہ کریں کہ ہم سب ملکر غریب ، یتیم اور نادار بچوں کی زندگی میں امید کا دیا روشن کریں گے اور ان کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں ملکی ترقی کی دوڑ میں شامل کریں گے۔ یہ اقدام اسلئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ ٹھکرائے ہوئے بچوں کی حیثیت اختیار نہ کریں بلکہ پھلیں، پھولیں اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ بلاشبہ یہ Law of Giving ہی ہے جو ہمارے سماج کی ترقی کا ضامن ہے … اگر ہم Law of Giving کا نظریہ اپنا لیں تو ہمارا معاشرہ بہت خوبصورت ہو جائے گا۔