پاکستان کی 74 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہی بنائے ہوئے بت اور اپنے اقدامات کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بھرتی کیے گئے ’’صحافتی عملے ‘‘کے ہاتھوں پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ فوجی اصطلاح میں بالکل ویسے ہی کہ جیسے اپنا تیار کردہ میزائل لانچنگ کے بعد اپنے ہی اسلحہ خانے پر گر جائے ۔ کمال تو ہے کہ کامران خان جیسے ترجمان اینکر اور شیخ رشید جیسے فرمانبردار آرمی چیف کو کھلے عام وارننگ دے رہے ہیں ۔ دونوں اپنے پہلے پیار آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ کی پروا کرنے پر بھی تیار نہیں ۔ اقتدار جانے پر شدت جذبات سے بے قابو ہو جانے والے عمران خان نے پاک فوج کے خلاف ایسی مہم چلائی کہ بھارت بھی عش عش کر اٹھا ۔ کہا جارہا ہے کہ یہ سب باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہورہا ہے اور اس میں ملوث افراد کی شناخت کی جاچکی ہے ۔ مناسب وقت پر کارروائی کی جائے گی۔ اب تک واضح نہیں کہ اس گھنائونے کھیل کے پیچھے صرف اندرونی ہاتھ ہیں یا کوئی سرا بیرونی حلقوں سے بھی جا ملتا ہے۔ لیکن یہ ثابت ہوچکا کہ جو اپنے مفادات اور ملازمت کے لئے پیشہ ورانہ فرائض کو نظر انداز کرکے اپنی ہی ایجنسیوں کا ٹائوٹ بن سکتا ہے ،وہ وقت بدلنے اور زیادہ بڑے فوائد کی خاطر کسی کا بھی کارندہ بن سکتا ہے ۔ یہ آئین پاکستان ہی ہے کہ جس نے سب کے دائرہ کار کو متعین کررکھا ہے مگر ہمارے کچھ حلقوں کو آئین اور قانون کا ذکر سنتے ہی بیزاری ہونے لگتی ہے۔ اب انہی کا پالا ہوا سیاسی گروہ آئین ، قانون کو روند کر اداروں کو گالیاں دے رہا ہے ، خانہ جنگی کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں مگر ریاست کی جانب ابھی تک معمول کی کارروائی کے بھی آثار نہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی گینگ تمام اداروں کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پہلی بات تو ہے کہ سیاسی سٹیک ہولڈروں سمیت دوسری سمت بیٹھے فریقوں نے ہرگز چوڑیاں نہیں پہن رکھیں ۔ جن نتائج کے خوف سے پی ٹی آئی اور اسکی پشت پناہی کرنے والے پورا نظام اکھاڑنے پر تلے ہوئے اس سے کہیں زیادہ سنگین نتائج وہ بھگت چکے جو اس وقت حکومت میں ہیں ، دوسرا پہلو یہ ہے ان جماعتوں کو اب صرف ریاستی وسائل ہی نہیں بلکہ متحرک کارکنوں کی بڑی تعداد کے ساتھ وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے ، تیسری بات یہ کہ تبدیلی روکنے کے لئے حکومت کی جو تبدیلی کی گئی وہ کسی کا کسی پر احسان نہیں ۔ ہائبرڈ سسٹم کے سبب پاکستان نہ صرف معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے بلکہ بدترین عالمی تنہائی کا بھی شکار ہے ۔ دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ اصل قصور وار کون ہے۔ذرا تصور کریں کہ ایک ایٹمی طاقت کا وزیر اعظم اپنے بھارتی ہم منصب کو فون کرتا ہے تو سنتا نہیں تھا ، اسی نے امریکی صدر کی صرف ایک فون کال کے لئے تمام پاپڑ بیلے مگر وہ بات کرنے پر تیار نہیں ہوا،تو جناب اس کی بنیادی وجہ ایک ہی تھی کہ جس کو ہمارے کچھ حلقے عالمی لیڈر بنا کر پیش کرتے رہے پوری دنیا اس کو ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھ رہی تھی۔تاریخ میں پہلی بار چینی حکام پاکستان میں کسی حکومتی سیٹ اپ سے دل برداشتہ اور ناراض نظر آئے ۔ یہ بات طے سمجھی جائے کہ موجودہ حکومتی بندوبست کا اہتمام کسی آپشن کے طور پر ہی نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں کیا گیا ۔ اگر رتی برابر بھی گنجائش ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ اپنے لاڈلے کو کسی نہ کسی طرح مزید وقت کے لئے بھی چلاتی رہتی ۔ ایک نیا حکومتی ڈھانچہ تو بن گیا مگر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ سول
حکمران ، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ماحول کمفرٹیبل نہیں ۔ زخم اتنے زیادہ اور تازہ ہیں کہ دوستانہ فضا بننے میں ابھی کچھ وقت لگے گا ۔ دوسری جانب وہ ہارا ہوا سابق حکمران ہے جس نے اپنی بیوی کو ایک پراپرٹی ٹائیکون سے ملنے والے ہیروں کے ہار کا صرف تذکرہ کرنے پر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی چھٹی کرادی تھی ۔ ایسی شاہانہ عادتیں اتنی آسانی سے کہاں جاتی ہے ۔ اس وقت عملـًا صورتحال بھی یہی تھی کہ ایک پیج کے دس سالہ منصوبے کے تحت تمام اداروں کو ہدایت تھی کہ وہ ’’ ٹائیگر فورس ‘‘ بن کر کام کریں۔ سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں نے مستقبل کے سارے سہانے خواب اسی دس سالہ منصوبے سے وابستہ کر رکھے تھے ۔ظاہر ہے جب سب کچھ اچانک اڑ گیا تو اب سانحہ کے متاثرین شور بھی نہ مچائیں ، گالیاں بھی نہ بکیں ،دفاتر کا گھیرائو اور پتھراؤ بھی نہ کریں ۔ جو آج ہورہا ہے جو کچھ آئندہ دنوں میں ہوسکتا ہے وہ غیر متوقع نہیں ۔ لیکن اگر یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس پر تشدد فارمولے سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے جائیں گے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ سابق حکمرانوں کا امتحان تو اس وقت شروع ہوگا جب اختیارات کے ناجائز استعمال ، کرپشن ، ملکی مفادات کو نقصان پہچانے پر مقدمات بنانے کا آغاز کیا جائے گا۔ اس وقت تک تو صورتحال یہ ہے کہ اس حکومت میں شامل پارٹیاں عمران خان اور ان کے موجودہ سرپرستوں کی سرگرمیوں سے کچھ خاص فکر مند نہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں کون کس کے لئے کتنا بڑا مسئلہ بنتا ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتیں جلد عام انتخابات کے حق میں ہیں انہیں اس وقت بھی اپنی مقبولیت اور انتخابی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے ۔ مگر موجودہ حکومتی سیٹ اپ قائم رکھنا اس لئے بھی لازمی ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے عالمی برادری اور مالیاتی اداروں سے کوئی نگران حکومت معاملات طے نہیں کرسکتی ۔ ڈائریکٹ مارشل لا اور نیم جمہوری ادوار کے بعد ہائبرڈ نظام کی مکمل ناکامی نے ثابت کردیا کہ اب ملک کو روائتی انداز میں نہیں چلایا جاسکتا ہے ۔ اس امر کی مزید تصدیق پی ٹی آئی کی حالیہ خلاف آئین و قانون حرکتوں سے ہوگئی ہے ۔ اب خرابی اس حد تک بڑھ چکی کہ ریٹائرڈ جنرل بھی اقتدار میں بھرپور حصے مانگنے پر اتر آئے ۔ ایکس سروس مین سوسائٹی حاضر سروس افسروں کے متوازی فورس بن کر سامنے آگئی ۔ اس تنظیم کی غالب اکثریت کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے پی ٹی آئی سوٹ کرتی ہے ۔ اسی لئے امریکی خط کے جعلی بیانیہ سے لے کر ہر جھوٹ میں کھل کر پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔دلچسپ بات یہ ہے ان کی اپنی اولادیں اور اثاثے امریکا اور یورپ میں ہیں۔ اگرچہ ان پر مکمل طور پر قابو اسی وقت پایا جاسکتا ہے جب ریٹائرڈ ججوں اور جرنیلوں سے بھی ان کی تمام کار گزار یوں کا بالکل اسی طرح سے حساب ہو جیسے مخالف سیاستدانوں اور عوام سے لیا جاتا ہے ۔ فی الوقت اتنا ہی کافی ہے کہ امجد شعیب، اعجاز اعوان اور اس طرح کے دوسرے ’’دانشوروں‘‘ کو ٹی وی چینلوں پر قوم کی ’’رہنمائی‘‘کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ اچھا فیصلہ ہے کیونکہ جمہوریت پسند عوام کے نزدیک ایسی تمام شخصیات ولن بن چکی ہے۔ اور اس سے حتمی طور پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اعلانات اپنی جگہ مگر فوج کو سیاست سے دور کرنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ بہت بڑی خرابیوں کے بعد ہی سہی مگر یہ احساس پورے ملک میں اجاگر ہورہا ہے ۔ کیا عجب تماشا ہے کہ جس عمران خان کو گن پوائنٹ پر حکومت دلوائی وہ نالائق تو نکلا ہی مگر ادارے کے ہی گلے پڑ گیا ۔ اور اگر وہ حکومت میں رہتا تو عوام میں ادارے کے متعلق خدشات بڑھتے ہی جانے تھے ۔ یعنی دونوں طرف مصیبت ہے ۔ایسا تھا نہ ہے کہ تمام حاضر سروس افسر پی ٹی آئی کے ہی سپورٹر ہیں۔ اداروں کے اندر سے ڈھکی چھپی تنقید تو 2019 میں شروع ہوگئی تھی ۔ 2020 میں ایک اہم ترین اجلاس کے دوران کم ازکم چار افسروں نے رائے دی تھی کہ عمران حکومت کی بیڈ گورننس ادارے کی ساکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ بہتر ہو گا کہ ایک پیج کے منتر سے دوری اختیار کرلی جائے ۔ مگر اس وقت پیار محبت ہی اس قدر حاوی تھے کہ یہ بروقت اور صائب مشورہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا گیا ہے ۔ اب کافی تاخیر ہوچکی۔پی ٹی آئی اوربعض لابیاں ، فوجی قیادت کے درپے ہیں ،ٹائوٹ سیاستدان ، اینکر ، میڈیا ہاؤس اس کام میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ اربوں بلکہ کھربوں سے جو سوشل میڈیا بنا کر پی ٹی آئی کے سپرد کیا گیا وہ اپنے ہی مالکان کے کپڑے اتارنے پر تلا ہے ۔ اس کے باوجود عسکری قیادت کو صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا ہوگا ۔ آزاد تجزیہ کاروں کو کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کے حالیہ سرپرستوں کی ریاست مخالف مہم اور یا کسی بھی قسم طرح کی پرتشدد مہم جوئی سے سول حکومت بآسانی نمٹ لے گی ۔ ان دنوں یہ کہا جارہا کہ دوسروں کو سبق سکھاتے سکھاتے اسٹیبلشمنٹ کو بھی سبق مل گیا ۔ ایسا ہوا یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا ۔