کپتان بھی ان بد قسمت وزراء اعظم میں شامل ہیں جو اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اقتدار سے الگ کر دیئے گئے،وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ انکے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی وہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے حربے اختیار کرتے رہے کہ انکی رخصتی کا بگل بج گیا،وہ شکوہ کناں تھے کہ پیسے کے بل بوتے پر انھیںہٹایا گیا۔ عوام کے سامنے انھوں نے ایک نئی کہانی رکھی جس کے ڈانڈے بقول ان کے عالمی سازش سے ملتے ہیں، اس ساری صورت حال میں جو بات زیادہ نمایاں ہوئی وہ یہ کہ کسی ممبر سے ڈیل کر کے اسکی سیاسی وفاداری تبدیل کرائی جاسکتی ہے، نیز یہ کہ سیاست اب پیسے کا کھیل ہے،انتخابی عمل میں اترنے سے لے کروزارت کے حصول تک بڑا کردار دولت کا ہوتا ہے، عام شہری تو انتخابی عمل میں شریک ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے اشرافیہ کا ایک سیاسی کلب ہے جس کی رکنیت صاحب ثروت ہی لے سکتا ہے،اس میں منشور، نظریہ، کردار پارٹی وفاداری سب قصہ پارینہ ہیں، اس ماحول سے عوام مایوس دکھائی دیتے ہیں،انکا موقف ہے کہ جب ذاتی مفادات کی بات ہو تو تمام اراکین پارلیمنٹ باہم شیرو شکر ہوجاتے ہیں جب عوامی مفاد یا اسکے حقوق کی بات ہو تو ضابطے اور قانون جگہ لے لیتے ہیں۔
سیاست کے اس مہنگے ترین کھیل میں زیادہ مایوسی تو اس ہارنے والے کو ہوتی ہے جواس امید پر سرمایہ کاری کرتا ہے کہ وہ جیت کر اپنی رقم منافع کے ساتھ وصول کرے گا، سیاست ایک عبادت ہے ماضی کا یہ نعرہ بھی اچھے سیاست دانوں کے ساتھ خاک ہو چکا ہے۔سوچنے کی بات کہ ہارا ہوا شخص بھی تو عوام کا نمائندہ تھا چند ووٹوں کی ہار سے اسکا ٹائٹل تو چھینا نہیں جا سکتا، تو کیا اس کے دکھوں کا کوئی مداوا ہے ؟ عوام کے ڈالے گئے ووٹ کی بھی کوئی وقعت ہو، اس کا جواب دنیا میں رائج مختلف انتخابی عوامل میں موجود ہے۔موجودہ سرکار میں شامل جماعتیں اگلے انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کرنے کی خواہاں ہیں، جس میں بڑا مطالبہ صاف اور شفاف الیکشن ہیں،عام شہری کا سوال ہے کہ اگر پہلے ہی کی طرح انتخابات منعقد ہوتے ہیں، صرف اشرافیہ ہی اس میں اپنی دولت کے بل بوتے پر شریک ہونے کی اہل ہے تو پھر اس ساری مشق کا کیا فائدہ ہے۔ سیاسی
اشرافیہ کی قیادت تو ہر سیاسی عہد میں برسر اقتدار رہی ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ اگلے الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں۔اس وقت متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخاب اپنانے کے لئے توانا آواز جماعت اسلامی کی ہے، اس کے امیر محترم سراج الحق ہر فورم پر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی مطالبہ کی صورت میں یہ عوام کی آواز بن رہا ہے، کیا الیکشن کمیشن اس پر لبیک کہے گا، موجودہ حکومت مجوزہ طرز انتخاب کو اپنے حق میں بہتر خیال کرے گی یا یہ محض خواہش اور مطالبہ ہی رہے گا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ طرز انتخاب اس وقت دنیا کے80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں نافذ العمل ہے، جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، ناروے، ڈنمارک ،جرمنی، فرانس، ہالینڈ قابل ذکر ہیں۔ عوام کی دلچسپی کے لئے بتانا ہے کہ اس کا فائدہ یہ کہ اس طریقہ انتخاب میں پیسہ کا کردار بہت حد تک محدود ہو جائے گا، ووٹ شخصیت کے بجائے پارٹی کو پڑے گا، کسی بھی پارٹی کے لئے پورا ملک یا صوبہ بھی انتخابی حلقہ ہو سکتا ہے، انتخابات پارٹی نشان پر ہوں گے،پارٹی قائدین اپنے منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں شریک ہوں گے،اس طریقہ انتخاب میں صرف وہی سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی جو الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیں، جن کے باقاعدہ ممبرز ہیں جو اپنا دستور اور منشور رکھتی ہیں، جن کے فنڈز کا حساب کتاب بھی شفاف ہے، یہ نظام سب سے زیادہ جمہوری ہے، اس میں پارلیمان میں نمائندگی کی شرط صرف اور صرف اکثریت ہے ۔
اگر کسی جماعت کے ووٹوں کی شرح پچاس فیصد ہے تو اسے پارلیمان میں اس شرح کے حساب سے نشستیں ملیں گی۔ اگر ایک لاکھ ووٹ کیلئے ایک نشست تصور کر لی جائے تو جو جماعت بیس لاکھ ووٹ پورے ملک یا اپنے انتخابی حلقہ میں حاصل کرے گی تو الیکشن کمیشن اس پارٹی کو 20 نشستیں الاٹ کر دے گا، یہ واضح رہے کہ ووٹنگ کے عمل سے قبل ایک مقررہ تاریخ تک جو الیکشن کمیشن اور پارٹی قائدین کی باہمی مشاورت سے طے ہوتی ہے الیکشن کمیشن ہر پارٹی قیادت سے مجوزہ امیدواران کی فہرست طلب کرے گا،انتخابی نتائج آنے کے بعد الیکشن کمیشن پارٹیوں کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے ناموں کوپارلیمان کی رکنیت کی آئینی شرائط پر پر کھے گا جو امیدوار اس پر پورا اتریں گے انھیں نشست الاٹ کر دے گا، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر جماعت خاص تعداد میں لازمی ووٹ حاصل کرے، یہ خاص تعداد کتنی ہو یہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کی معاونت سے مقرر کر سکتی ہیں۔اس نظام کو اپنانے سے ضمنی انتخاب سے نجات مل جائے گی، اگر کسی رکن پارلیمان کا انتقال ہو جاتا ہے یا کسی وجہ سے چھوڑ جاتا ہے تو متاثرہ پارٹی کی فراہم کردہ فہرست میں سے اگلے نام کو نشست دی جائے گی، دنیا میں یہ طریقہ پارٹی لسٹ سسٹم، فکسڈ ممبر سسٹم یاسنگل ٹرنسفر ایبل ووٹ کے نام سے اپنایا جاریا ہے،یوں تو ہر سسٹم میں فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں، لیکن اس کو اپنانے سے جماعتی وفاداریوں کی خریدوفروخت کا قلع قمع ہو جائے گا، ہر ووٹ جو جہاں بھی کسی بھی پارٹی کے نام سے کاسٹ ہو گا اس کی اہمیت ہو گی، اس سے کسی بھی امیدوار کی ہار جیت کا تصور ختم ہو جائے گا ۔
اس عمل سے نہ تو دولت مند فرد پارٹی ٹکٹ کے نام پر پارٹی قیادت کو بلیک میل کر سکے گا، نہ اسکو پارلیمان میں بھیجنا پارٹی کی مجبوری ہو گی، اس سے الیکٹیبل سیاست بھی اپنی موت آپ مر جائے گی، اس سے یہ توقع بھی رکھی جا سکتی ہے کہ ہر پارٹی اپنے اہل با صلاحیت ورکرز کی فہرست الیکشن کمیشن کو دے گی جو پارلیمان میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ اس طریقہ انتخاب سے ہر پارٹی کی نمائندگی پارلیمان میں ہو گی، یہ ایک قسم کی قومی حکومت ہی کی ایک شکل ہوگی اس لئے کسی آئینی بحران کا خدشہ بھی نہیں ہو گا۔ اس سے گراس روٹ لیول تک سیاسی جماعتوں کو قیادت میسر آئے گی جس کا فائدہ لوکل گورنمنٹ الیکشن میں ہو گا، سیاسی جماعتیں نچلی سطح تک مضبوط ہوں گی۔ خاندانی، موروثی قیادت بتدریج پس منظر میں چلی جائے گی، ورکرز پالیٹکس وجود میں آئے گی۔
اس طریقہ انتخاب میں اگر کوئی جماعت بھی پچاس فیصد سے کم ووٹ لے گی تو وہاں دوبارہ انتخاب منعقد ہوتا ہے، جس کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ایسا طرز انتخاب اپنایا جائے جس میں باصلاحیت افراد جو اشرافیہ کا حصہ نہ ہوں مگر پارلیمان میں بر اجمان ہوں اور کوئی غیر مرئی قوت بھی ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کرنے میں موجودہ سیاسی اتحاد کتنا سنجیدہ ہے، پیسہ کی سیاست سے متنفر سابقہ حکمران پارٹی اس میں کیا کردار ادا کرتی ہے ،البتہ جماعت اسلامی کی قیادت نے متناسب نمائندگی پر انتخاب کرانے کی بہترین تجویز دی ہے۔