نئی حکومت قائم ہوتے ہی ہیلتھ کارڈ کی سہولت پر مستحق مریضوں کا علاج غیر اعلانیہ طور پر روک دیا گیا ہے، پہلے سے طے شدہ آپریشنز پر سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں نے تاریخ پر تاریخ دینا شروع کر دی ہے۔ حکومت تبدیل ہونے سے قبل ہی جب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے صحت کارڈ کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے جس سے مختلف شہروں میں سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں موجود سیکڑوں مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے جب کہ اس سے قبل ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جا رہی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیلتھ کارڈ کے ذریعے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کی حکومت کی طرف سے ادائیگی کے لیے ہسپتالوں کی انتظامیہ کو تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ نئی آنے والی حکومت سے پیسے کیسے وصول کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے بہت سی مضبوط اور توانا آوازیں سوشل میڈیا پر بھی اٹھی ہیں جن میں منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف سے کہا گیا ہے کہ برائے مہربانی انسانیت کے ناتے صحت کارڈ کو جاری رکھیں، کیونکہ یہ ہر پاکستانی کے لئے ہے۔ لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ اگر کسی فرد کے گھر میں کوئی بیمار ہو تو اس کے باورچی خانے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور گھر والے بے انتہا مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن جب انہیں پتا ہو کہ علاج کی ادائیگی حکومت کرے گی تو انہیں بہت بڑا ریلیف محسوس ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کیونکہ صحت کارڈ کسی ایک فرد کے لئے نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر شہری کے لیے ہے تمام لوگوں کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر یہ سہولت مہیا کی گئی ہے۔ یعنی اپنا شناختی کارڈ دکھا کر منظور شدہ لسٹ میں شامل ہسپتالوں سے علاج کرایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام نے شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ آج ہی حکم دیں کہ تمام ہسپتال صحت کارڈ قبول کرتے رہیں اورا سے بند نہ کریں، ایسی پالیسیاں منسوخ نہ کریں جس سے عام آدمی کو کچھ ریلیف ملے۔ ان کی مزید رائے ہے کہ چاہے تو اس کا کریڈٹ لے لیں، نام تبدیل کر دیں لیکن اسے جاری رکھیں۔
قومی صحت کارڈ کا جب اعلان ہوا تو ہمیں اس وقت بھی ایسے ہی تبصرے سننے کو ملے تھے کہ غریب کے مسائل کے حل کا شوشہ آج کے دور کی سیاست میں ایک رواج بن چکا ہے جو صرف عوام کو رجھانے کا بس ایک ذریعہ ہے۔ یہ تمام غریبوں کے نام پر
اربوں روپے بٹورنے کے طریقے ہیں جب کہ پروگرام آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ یہ ہے بھی درست ماضی کے پروگراموں کا جو حشر ہوا اس کے باعث عوام میں قومی صحت کارڈ کے بارے میں ایسا تاثر پھیلنا بعید از قیاس نہیں تھا۔ سرکاری منصوبوں کے متعلق عوام کے ذہنوں میں قائم منفی رجحانات قومی صحت کارڈ پروگرام کے آغاز پر بھی نمایاں تھے۔ لیکن بڑے پیمانے پر مستحق اور نچلے طبقے کے لئے فلاحی پروگرام ترقی پذیر دنیا میں سماجی تحفظ اور غربت میں کمی کی حکمتِ عملیوں کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد پاکستان کے غریب ترین گھرانوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنا ہے تا کہ ان کے مصائب میں کچھ کمی آ سکے۔ جو طریقۂ کار اور حکمتِ عملی اس پروگرام میں اپنائی جا رہی ہے اس کے تحت سیاسی اقربا پروری کی گنجائش نہیں رہتی اور کرپشن کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ورنہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جو بھی سماجی خدمت کی کوئی سہولت فراہم کی جاتی رہی ہے تو اس کی بندر بانٹ شروع ہو جاتی تھی۔
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یا تو انتہائی غربت میں زندگی گزارتا ہے یا کسی غیر معمولی حادثے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ خاص طور پر غریب افراد کو مناسب خوراک کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے شدید بیماریوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں غریب کنبوں کا تخمینہ تقریباً 80 لاکھ خاندانوں کا ہے اور خاندان دور دراز کے دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔ جن کے لئے فرداً فرداً قومی صحت کارڈ کے لئے اپلائی کرنا مشکل تھا لیکن یہاں بھی ٹھوس حقائق کو مدِ نظر رکھا گیا اور ایک ایسے وسیع، تجربہ کار اور پختہ نظام کی موجودگی کا اعتراف کیا گیا جسے حقیقی معنوں میں فعال کر کے حکومتیں سماجی خدمات کی فراہمی کا مربوط نظام قائم کر سکتی ہیں۔ اور وہ ہے نادرا کا قومی شناختی کارڈ۔ پنجاب کے تمام افراد کے قومی شناختی پر صحت کارڈ جاری کر دیاگیا ہے اور تمام افراد اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اس پروگرام سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ایمر جنسی میں مفت ادویات اور علاج کی سہولت میسر تھی جو کہ صرف سرکاری ہسپتالوں تک محدود تھی۔ ظاہر ہے ملک میں سرکاری ہسپتال تو ہر شہر میں بہت محدود تعداد میں ہیں۔ ہم جب فیصل آباد کی بات کرتے ہیں تو 40 سال قبل اس شہر کی آبادی تقریباً 8 لاکھ تھی اور اس کے لئے دو بڑے سرکاری ہسپتال تھے اور اب جب کہ فیصل آباد کی آبادی ۱یک کروڑ تک پہنچ چکی ہے تو اس میں صرف دو چھوٹے سرکاری ہسپتالوں کا اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے جو اتنی بڑی آبادی کے لئے بالکل ناکافی ہیں۔ قومی صحت کارڈ صرف فیصل آباد کی حد تک 35 ہسپتالوں میں کارآمد ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ پیلی ٹیکسی ہو یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سیاسی وابستگی اور اقربا پروری کے باعث ناکامی کا شکار ہوئے۔ جب قومی شناختی کارڈ پر قومی صحت کارڈ کی سہولت میسر آئے گی تو اس طرح کے مسائل جنم نہیں لیں گے۔ سارے پنجاب میں صحت کارڈ کو قومی شناختی کارڈ سے منسلک کیا جانا نہ صرف جرأت مندانہ ہے بلکہ دنیا کے لئے مثال بھی ہے۔
اس کارڈ کے اجرا کے موقع پر میں نے ذاتی طور پر فیصل آباد کے گرد و نواح کے چھوٹے شہروں جیسے کے سمندری، جڑانوالہ وغیرہ کا وزٹ کیا تو پرائیویٹ ہسپتال کے مالکان کا کہنا تھا کہ یہ ایک انتہائی مفید سہولت ہے جو عوام کو موجودہ دور میں میسر آئی ہے اور ان ہسپتالوں پر بہت رش کی صورتحال ہے جو لوگ کئی کئی سال سے آپریشن کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے کے باعث درد کم کرنے والی ادویات لے کر گزارا کر رہے تھے انہوں نے قومی صحت کارڈ کی سہولت میسر آنے پر ہسپتالوں کا رخ کر لیا۔ اور نجی ہسپتالوں پر کام کابہت زیادہ لوڈ ہے۔ اس پروگرام کے تحت آپریشن کے اخراجات، پانچ دن کی ادویات اور اگر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا تو انہیں گھر تک جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔ ہر ہسپتال میں محکمہ صحت کے لوگ بیٹھے ہیں جو کہ نہ صرف ریکارڈ چیک کرتے ہیں بلکہ مریضوں کی رہنمائی میں بھی مصروف ہیں۔ اکثر لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ نجی ہسپتال اپنے بل بڑھانے کے لئے نارمل کیس پر بڑے آپریشن سے ڈلیوری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا موجودہ پروگرام میں بہت بہترین حل نکالا گیا ہے اور آپریشن کے ذریعے ڈلیوری کے لئے 20000 روپے رکھے گئے ہیں جب کہ نارمل کیس کے لئے 16000 روپے رکھے گئے ہیں جو کہ ہسپتالوں میں نارمل ڈلیوری کے فروغ میں بہت معاون ہو گی۔ کارکردگی کے تجزیے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قومی صحت کارڈ پروگرام جن مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے اس کے تحت اپنے ہدف حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں ایک سماجی و انسانی خدمت کا پہلو پنہاں ہے لہٰذا ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ اسے کسی صورت بھی بند نہیں ہونا چاہئے۔